بچپن کی یادیں – 5


ہائی اسکول میں داخلہ لیا تو ایک نئی دنیا آنکھوں کے سامنے تھی۔ ایک چار کمروں والے اسکول کے مقابلے میں ایک وسیع و عریض اسکول، جس میں ہر کلاس کی 5 سے زیادہ سیکشنز تھیں۔ میرے لئے یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔

kids_playing

ہماری کلاس 6th کے باقی کلاسوں کی طرح اسکول کے دوسرے کونے میں تھی، جبکہ بیچ میں گراؤنڈ تھی۔ اسی گراؤنڈ سے ملحق ایک والی بال گراؤنڈ بھی تھی، جس میں سالانہ بنیادوں پر والی بال ٹورنامنٹ منعقد ہوتے تھے۔ ایک روز ایک ساتھی پلاسٹک کی گیند لے کر آیا تھا۔ باتوں باتوں میں سب دوستوں نے طے کیا کہ چلو آج فٹ بال کھیلتے ہیں۔ اس روز تو سب کو بہت مزہ آیا۔ دھیرے دھیرے دوسرے ساتھی بھی جمع ہونے لگے۔ اس طرح دو ٹیمیں بنا کر روزانہ اسکول کے ٹائم سے پہلے میچ ہوتا تھا۔ ہم لوگ صبح سویرے ہی پہنچ جاتے تھے۔ یہ سلسلہ آٹھویں جماعت تک جاری رہا، حتیٰ کہ کچھ دوستوں کے درمیان کھیل کے دوران پھوٹ پڑ گئی، اور انہوں نے فارم ماسٹر سے شکایت کرکے کھیل بند کرودایا۔

چھٹی جماعت کے دوران ہی کچھ دوست بن گئے تھے۔ کچھ لڑکوں سے صرف سلام دعا تھی۔ ان میں سے ایک دوست (نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا) بہت غریب تھے۔ ان کے کپڑے دیکھ کر اکثر ہم اپنی حالت پر شکر ادا کرتے تھے، کہ اللٰہ نے ہمیں بہت سے لوگوں سے اچھا نوازا ہے۔ خیر، ایک روز بیٹھے بیٹھے یہ بات طے ہوگئی کہ ہمیں اپنے دوستوں کی مدد کرنی چاہیئے۔ طے ہوا کہ ہم اپنا جیب خرچ بچا کر پیسے اکٹھے کریں گے، اور مستحق دوستوں کے لئے کپڑے یا اسکول کی کتابیں خرید کر دیں گے۔

اسکول کے سامنے فوٹواسٹیٹ کی ایک دکان تھی۔ میری لکھائی چونکہ اچھی تھی، اس لئے میں نے ایک صفحے پر پمفلٹ سا بنا کر لکھا، کہ ہم اپنے دوستوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ میں سے کوئی ہمارا ساتھ دینا چاہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔

اب یہ معمہ تھا کہ دوستوں کی اس ٹولی کو کیا نام دیا جائے، جو پمفلٹ پر لکھا جائے۔ بہت غوروخوض کے بعد یہ فائنل ہوا کہ چونکہ ہم لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اس لئے اس ادارے کا نام انجمن خدمت خلق ہونا چاہیئے۔ اسی نام سے ایک دوسرا ادارہ تھا ہمارے گاؤں میں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نام رکھا تھا۔

نام فائنل کرنے کے بعد پمفلٹ لکھ کر فوٹواسٹیٹ کاپیاں کروائی گئیں۔ سب سے پہلے تو ہم نے اپنی کلاس کے سارے لڑکوں میں تقسیم کئے۔ اکثر دوستوں کی طرف سے اچھا ردعمل سامنے آیا۔ ہم چند دوستوں نے مل کر اپنی جیب خرچ جمع کرنی شروع کردی، جو کہ 1996ء میں 1 سے 2 روپے روزانہ ہوتی تھی۔ باقی دوستوں نے بھی دیکھا دیکھی دلچسپی لینا شروع کی۔ اس طرح دو ہی ہفتوں میں ہمارے پاس 100 روپے سے زیادہ رقم جمع ہوگئی۔

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، اس کے بعد ہمیں ہمت ہوئی تو باہمی مشورے کے بعد اپنے اساتذہ سے بھی اس سلسلے میں مدد لینے کی ٹھان لی۔ ہماری توقع کے برخلاف، تقریباً سارے اساتذہ کرام نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ کسی نے تعریف کی، کسی نے کہا اچھی سوچ ہے۔ کسی نے باقاعدہ پیسے بھی جمع کروائے۔ اس سے ہمیں حوصلہ ملا۔

اسی دوران کچھ دلچسپ واقعات بھی پیش آئے۔ ہم نے ادارے کا نام انجمن خدمت خلق رکھا تھا۔ اسی کا انگلش میں بھی ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب چھٹی جماعت میں اچھا ترجمہ کرنے سے تو رہے۔ سوچ سوچ کر یہی طے پایا کہ لفظی ترجمہ کیا جائے، جو کچھ یوں بنا:
Peoples Helping Association

ہم نے جب اساتذہ سے بات کرنی شروع کی، تو وہ پمفلٹ بھی ساتھ میں دیتے تھے۔ ایک استاد نے پمفلٹ پڑھ کر پہلے تو ہمارے کان مروڑے، پھر کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کے لئے کام کیا تو ایسے ہی کان مروڑے جائیں گے۔ پہلے تو مجھے ان کی بات کچھ سمجھ نہیں‌ آئی لیکن بعد میں جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب اس انگریزی ترجمے کا شاخسانہ ہے۔ خیر، انہوں نے بہت حوصلہ افزائی کی، اور باقاعدہ حصہ بھی لیا اس کام میں۔

ایک دوسرے استاد تھے ہمارے، بہت ہی مہربان اور شفیق انسان تھے۔ اللٰہ ان کو خوش رکھے۔ وہ کسی حادثے میں ایک ٹانگ سے معذور ہوگئے تھے۔ اس لئے مصنوعی ٹانگ سے لاٹھی کے سہارے چلتے تھے۔ ایک دن وہ بھی کلاس میں آئے تو ہم نے انہیں بھی اپنی بات بتائی کہ ہم اپنے دوستوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہماری بات سننے کے بعد کہا، ٹھیک ہے، وہ لڑکا کون ہے جس کی تم لوگ  مدد کرنا چاہتے ہو؟

ہم نے پہلے ہی باہمی مشورے سے ایک دوست کا نام فائنل کیا تھا۔ اسی کا نام ان کو بتا دیا۔ انہوں نے سنتے ہی کہا، ارے وہ نالائق لڑکا؟ ارے وہ تو فیل ہوجائے گا۔ پھر اس کو کپڑے دینے کا کیا فائدہ؟ ہم نے کوشش کی کہ ان کو قائل کرسکیں، لیکن ان کو وہ لڑکا بالکل پسند نہیں تھا، اور اپنی لاٹھی سے اس کی طرف اشارہ کرکے کہتے، نہیں نہیں یہ فیل ہوجائے گا۔

امتحانات بھی قریب تھے۔ امتحانات کے بعد سب دوستوں نے مل کر جمع شدہ رقم سے اسی لڑکے کے لئے اسکول یونیفارم خرید کر اسے دیا۔ سب دوستوں کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے، کہ بالآخر ہم کسی کے کام آسکے۔ خوشی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لڑکا بھی پاس ہوگیا تھا، جس کے فیل ہونے کی پیشنگوئی ہمارے استاد محترم نے کی تھی۔

ہمارا ارادہ تھا کہ اس ادارے کو آگے بھی جاری رکھا جائے، لیکن ہم ایسا نہ کرسکے۔ تھے تو لڑکے ہی، آج کی بات کل بھول جانے وال
ے!

تبصرہ کریں