Monthly Archives: جولائی, 2010

پاک سرزمین شاد باد


ہر سال 14  اگست کو شاندار طریقے سے منانے کے لئے گاؤں میں زور و شور سے تیاریاں ہوتی تھیں۔ دکانوں پر پاکستان کے پرچم مختلف ڈیزائنوں میں  قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر کے ساتھ دستیاب ہوتے تھے۔ بچوں کی دلچسپی کا پورا سامان تھا۔ ہم سب دوست اسکول  کے سامنے والی کتابوں کی دکان پر جا کر پاکستان کے پرچم خرید کر اپنے گھر  میں لگاکر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ۔ کریم چاچا کو 14 اگست کا بہت شدت سے انتظار رہتا تھا۔ اس  دن وہ حجرے کی چھت پر پاکستان کا پرچم لگاتے تھے۔ ہم سب بچے حجرے  میں فوجی انداز میں پریڈ کرتے، تو کریم چاچا  بہت خوش ہوتے۔ جیب سے پانچ روپے کے نئے نئے نوٹ نکال کر ہمیں دیتے، اور کہتے، بیٹا، بڑے ہو کر فوج میں جانا! اپنے ملک کی حفاظت کرنا۔

اس بار بھی  14 اگست کی  تاریخ قریب آرہی تھی۔ ہم سب ساتھیوں نے اس بار 14 اگست کو شایان شان طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا تھا۔آپریشن کی وجہ سے گاؤں کی گلیاں ویران تھیں۔ ہم چند دوست جو اسکول میں ایک ساتھ پڑھتے تھے، اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد اکثر  حجرے میں بیٹھ کر موجودہ حالات پر بحث کرتے۔  سیاست اور حالات حاضرہ میرا پسندید موضوع ہے، جبکہ باقی ساتھیوں کو کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں دلچسپی ہے۔ عام حالات میں کوئی ساتھی سیاست پر بحث نہیں کرتا تھا، لیکن آج کل کے حالات ایسے تھے جو ہر دوست کے لئے پریشانی کا سبب تھے۔ سرحد اور قبائلی علاقوں میں آپریشن اور اس کے ردعمل میں خودکش دھماکوں کا سلسلہ ہم سب دوستوں کے لئے باعث  تشویش تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوات میں فوجی آپریشن  نے تو جیسے ہمارے علاقے کو نظر لگادی تھی۔ پہلے  یہ صورتحال تھی کہ علاقے کی دکانیں اور بازاریں بارونق تھیں۔ ملک کے گوشے گوشے سے   سیاح ہمارے علاقے میں آتے تھے اور اس جنت نظیر وادی کا حسن دیکھ کر مبہوت رہ جاتے۔ اب یہ حالت تھی کہ  بازاروں میں دکانوں پر تالے پڑے تھے۔ اسکول بند تھے۔ ہم  کبھی کبھار اپنے اسکول کے باہر جاکر اکٹھے ہوجاتے، جہاں پر اب پاکستان آرمی کا کیمپ تھا۔

اسکول کے سامنے دکانیں تھیں، جو اب آپریشن کی وجہ سے بند تھیں۔ ہم ان دکانوں کے سامنے بیٹھنا چاہ رہے تھے کہ فوجی جوانوں کی گشت  والی گاڑی ہمارے سامنے آکر رک گئی۔ ایک نوجوان فوجی، جس کی عمر بمشکل 22 برس ہوگی، گاڑی سے نکل کر ہمیں  اشارہ کرکے کہنے لگا، تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟ گھر جاؤ، ابھی کرفیو لگنے والا ہے۔

حجرہ تو جیسے ویران ہوگیا تھا۔ آپریشن کا اعلان ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ  محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں جیسے ویران ہوگیا تھا۔ معدودے چند افراد تھے، جو کہ اپنے گھروں میں ابھی تک ٹھہرے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے، جو کہ اپنی مٹی سے پیار کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے  سے انکاری تھے۔ حجرہ ، جو کہ ہمارے گاؤں کا معاشرتی مرکز تھا، جہاں پر بڑے  بزرگ بیٹھتے تھے۔ جہاں پر باہر سے آنے والے ہر مہمان کی خاطر تواضع کی جاتی تھی، آج ویران تھا۔

کریم چاچا بھی ان لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے اپنا گھر چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا تھا۔ گاؤں کے سرکردہ لوگ ان کے پاس آئے اور ان کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ حالات کی نزاکت سمجھانے کی کوشش کی کہ گولی چاہے طالبان کی طرف سے آئے یا فوج کی طرف سے، موت ہر صورت میں یقینی ہے۔ لیکن ان ساری باتوں کا کریم چاچا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا، یہ گاؤں میرا پہلا اور آخری ٹھکانا ہے، میں اسے چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ آپ لوگ جاؤ، اللٰہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت کرے گا۔

آپریشن شروع ہوا، ہر طرف گولیوں کی آوازیں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا شور تھا۔ کرفیو نافذ کردیا گیا تھا، کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ ہمارے گھر میں جتنا راشن تھا، وہ بھی ختم ہونےوالا تھا۔ حالات روز بروز خراب ہورہے تھے۔ کبھی کبھار کرفیو میں نرمی کردی جاتی تو ہم لوگ کھانے کا کچھ بندوبست کرنے نکل جاتے۔ اکثر دکانیں یا تو لڑائی کے دوران تباہ ہوچکی تھیں، یا پھر دکاندار خراب حالات کی وجہ سے مردان اور صوابی کے مہاجر کیمپوں میں منتقل ہوچکے تھے۔

ہمارا گاؤں بھی اس لڑائی کی زد میں آیا تھا۔ طالبان کے کچھ لوگ ہمارے علاقے میں مورچہ زن ہوگئے تھے، ان کے تعاقب میں فوج نے یہاں پر بھی فضائی اور زمینی حملہ کیا۔ وہ رات بھی  کیا رات تھی۔ گولیوں اور بمباری کی آواز  سے پورا علاقہ لرز رہا تھا۔ قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ ہم لوگ ایک ہی کمرے میں دبک کر بیٹھے تھے۔  ایسی لڑائی پہلی بار دیکھ رہا تھا۔  ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ رات کبھی بھی صبح نہیں ہوگی۔ چاند بھی اس رات کو نہیں نکلا تھا۔ گھپ اندھیرے میں جب فوجی طیارے کسی ٹارگٹ پر بم گراتے تو  چند سیکنڈ کے لئے جیسے پورا علاقہ روشنی میں نہا جاتا۔

اگلے روز دوپہر کے وقت کرفیو میں کچھ نرمی کی گئی۔ میں گھر سے چھپ کر اپنے دوستوں کے ساتھ بازار گیا۔ عجیب منظر تھا۔ کتابوں کی وہ دکان، جہاں سے ہم اسکول کی کتابیں، اور پاکستان کی جشن آزادی  کے لئے پرچم خریدتے تھے، ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ آس پاس کی بہت ساری دکانیں بھی اس تباہی کی زد میں آئی تھیں۔ یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کارروائی فوج کی تھی یا طالبان کی، لیکن  بازار کا بہت سارا حصہ اس کارروائی کی نذر ہوچکا تھا۔ بازار سے واپسی پر حجرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ اندر جا کر دیکھتا ہوں، ہوسکتا ہے کریم چاچا بیٹھے ہوں، جا کر دیکھا، لیکن کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ خالی چارپائی اوراس کے سامنے پڑا حقہ حالات کی سنگینی بیان کررہا تھا۔

شام کے وقت پھر کرفیو نافذ کردی گئی ۔ اگر چہ آج کچھ خاموشی تھی، لیکن ایسی خاموشی  جو کسی طوفان کے آنے سے پہلے ہوتی ہے۔ یہ خبریں آئی تھیں کہ طالبان کے اکثر لوگ مارے گئے ہیں، اور اب فوج یہاں  پر مزید کارروائی نہیں کرے گی۔ لیکن ہر شخص  ناامیدی کی کیفیت میں تھا۔ حالات کا کچھ بھروسہ نہیں تھا، کب فائرنگ اور بمباری  شروع ہوجائے۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ رات کے  پچھلے پہر  فائرنگ کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ فائرنگ کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی میدان جنگ میں بیٹھے ہوں۔ کچھ دیر کے لئے فائرنگ کی آوازیں رک جاتیں، لیکن پھر سے دوبارہ فائرنگ شروع ہوجاتی۔ تھوڑی دیر بعد فضا میں طیاروں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ گاؤں پر بمباری کا خطرہ تھا۔ ہم سب فکرمند ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ امی مجھے تسلی دینے لگی، کچھ نہیں ہوگا۔  لیکن مجھے یقین نہیں ہورہا تھا۔

فوجی طیاروں نے کچھ دیر بعد بمباری شروع کردی۔ بمباری سے درودیوار لرزنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا، قیامت آگئی ہے۔ چاروں طرف گولیوں اور بمباری کا شور تھا۔ گاؤں والوں پر کیا گزر رہی تھی، کون ان گولیوں اور بمباری کا نشانہ بن رہا تھا، کچھ پتا نہیں تھا۔ ہم سب دل ہی دل میں دعائیں کررہے تھے، کہ اللٰہ میاں سب گاؤں والوں کی حفاظت فرما۔ وہ رات اسی طرح آنکھوں میں کٹ گئی۔ صبح کے وقت کہیں جا کر میری آنکھ لگ گئی، جب بمباری اور فائرنگ بند ہوگئی۔

نیند سے اٹھنے کے بعد پتا چلا کہ کل رات کی بمباری میں کریم چاچا کا  گھر اور حجرہ تباہ ہوگیا ہے۔ گھر کا کچھ حصہ بچ گیا تھا، لیکن ان کے گھر کے کچھ لوگ اس بمباری کا نشانہ بن چکے تھے، کچھ شہید ہوچکے تھے اور کچھ زخمی، جن کو ہسپتال لے جایا گیا۔ کریم چاچا البتہ اس بمباری  میں محفوظ رہے تھے۔ وہ اپنے زخمی بیٹوں کو لے کر ہسپتال پہنچ گئے تھے، گاؤں کے لوگوں نے بھی ان کی مدد کی۔ جبکہ شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ کرفیو کی پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا تھا۔

14 اگست قریب آرہا تھا، اور کریم چاچا ابھی تک ہسپتال سے  نہیں لوٹے تھے۔ ہر سال وہ 14 اگست کا دن  حجرے میں ہی مناتے۔ اس سال تو حجرہ ہی نہیں رہا تھا، ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ میرا دوست سلیم کہتا تھا، کہ اب کریم چاچا کبھی بھی  14 اگست کا دن نہیں منائیں گے، کیونکہ ان کا گھر اور حجرہ  فوج کی بمباری سے تباہ  ہوچکا ہے۔ کبھی باہر جانا ہوتا تو راستے سے گزرتے ہوئے حجرے  کی طرف نگاہیں اٹھ جاتیں۔ ملبہ ابھی تک وہیں کا وہیں پڑا ہوا تھا۔

14 اگست تک لڑائی میں کمی آچکی تھی۔ ہمارے علاقے میں کرفیو ختم کردیا گیا تھا۔ بازاریں کھل گئی تھیں۔ اور جو لوگ اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے، وہ بھی آہستہ آہستہ واپس آرہے تھے۔ البتہ اسکول نہیں کھلے تھے، کیونکہ فوج ابھی تک علاقے میں موجود تھی، اور ہمارا اسکول فوج کے استعمال میں تھا۔

یوم آزادی کے موقع پر دل بہت اداس تھا۔میرے اکثر دوست اپنے گھروالوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر جاچکے تھے۔ ہم 14 اگست کو حجرے میں فوجیوں کے انداز میں جو پریڈ کرتے تھے، وہ بھی اس سال ناممکن سا لگ رہا تھا۔ ایک تو حجرہ بمباری سے تباہ ہوچکا تھا، اور کریم چاچا کا بھی پتا نہیں تھا کہ وہ ہمیں پریڈ کرنے دیتے یا نہیں۔ پانچ روپے کا نوٹ دیتے یا نہیں۔

عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔ دل بے اختیا ر حجرے کی طرف جانے پر مجبور کررہا تھا۔ حالانکہ مجھے پتا تھا کہ وہاں اب ملبے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ پھر بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر سے نکلا۔ تھوڑا آگے گیا تو کچھ بچوں کے گنگنانے کی آواز  کانوں میں پڑی۔  میں اسے وہم سمجھ رہا تھا۔ ہر 14 اگست کو ہم قومی ترانہ اسکول کی طرح گاتے۔ کریم چاچا قومی ترانہ سن کر بہت خوش ہوتے۔ ان کا چہرہ کھل اٹھتا تھا۔ شاید اسی انداز میں کوئی قومی ترانہ گا رہا تھا۔ میرے قدموں کی رفتار تیز ہوگئی۔۔۔۔۔۔ کون ہے جو ان حالات میں بھی پاکستان کا ترانہ گارہا ہے؟ حجرہ قریب آرہا تھا۔ گلی کے اگلے موڑ سے آگے کبھی حجرہ ہوا کرتا تھا، اب تو ملبے کا ڈھیر تھا۔۔۔۔۔میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ ترانے کی آواز بھی قریب آرہی تھی۔

حجرے کے سامنے پہنچ کر جو  منظر دیکھ، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ترانہ گانے والے میرے اپنے دوست تھے، حجرے کے ملبے پر بانس کی لکڑی پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا،  کریم چاچا پرچم کے سامنے سلیوٹ کے انداز میں اپنا ہاتھ  پیشانی پر رکھے کھڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آنسو ان کی آنکھوں سے نکل کر ان کے چہرے پر بہتے ہوئے ان کی داڑھی کو تر کر رہے تھے۔ میرے دوست ابھی تک ترانہ گا  رہے تھے۔۔۔۔

پاک سرزمین شاد باد

کشور حسین شاد باد

پاکستانی ٹیم کی شکست اور میڈیا کا طرز عمل


پاکستان انگلینڈ میں آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کھیل رہا ہے۔ ٹوئنٹی 20 میں جس طرح پاکستان کو فتح ملی، اس سے پاکستانیوں کو جہاں تفریح کا سامان مہیا ہوا، وہیں ٹیم کے اعتماد میں‌ بھی اضافہ ہوا۔ شاہد آفریدی جس طرح ٹیم کی رہنمائی کررہے تھے، اور خود بھی بہتر کھیلنے کی کوشش کررہے تھے، اس سے پاکستان کی ٹیم کافی بہتر ہوگئی تھی۔

اس کے برعکس، ٹیسٹ ٹیم کی حیثیت سے پاکستان کی ٹیم اتنی اچھی نہیں، کیونکہ اکثر پرانے اور تجربہ کار ٹیسٹ کھلاڑی ٹیم سے باہر ہیں۔ شاہد آفریدی نے خود بھی کئی سال سے ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی۔ اس لئے ان کو بطور ٹیسٹ کپتان مقرر کرنا بہت لوگوں کی نظروں میں غلط تھا۔ لیکن پھر بھی پاکستانیوں کے دل میں ایک امید تھی کہ پاکستان میچ جیت سکتا ہے۔

پہلے ٹیسٹ میچ میں جس طرح پاکستان کو شکست ہوئی، اس سے آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف لگاتار 13 میچ جیتنے کا ریکارڈ قائم کرلیا۔ سلمان بٹ کے علاوہ باقی کھلاڑیوں کا کھیلنے کا انداز ٹیسٹ کرکٹ والا بالکل نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹوئنٹی 20 کا میچ ہورہا ہے۔ خاص کر آفریدی اور عمر اکمل کے اسٹائل سے تو یہی لگ رہا تھا۔

ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہے۔ ہم پاکستانی اگر چہ اس معاملے میں کچھ زیادہ جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ہم ہرجیت پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں اور ہر ہار پر ٹیم کو کوستے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ جذباتیت ہمارے معاشرے کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ ہمارا طرزِ عمل ہر معاملے میں ایسا ہے۔ چاہے کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا اکھاڑہ، جذباتی نعرے ہی ہم پر حاوی ہوتے ہیں۔

اس جذباتی طرز عمل کی تازہ مثال شاہد آفریدی کا آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان ہے۔ ایسے نازک موقع پر یہ اعلان اگرچہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے لیکن جس طرح ہمارا میڈیا اس واقعے کو پیش کررہا ہے، وہ کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ جیو ٹی وی کے نیوز اینکرز بار بار مختلف ماہرین اور نمائندوں سے یہ بات کہلوانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹیم میں اختلافات ہیں اور آپس میں کچھ جھگڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے آفریدی مایوس ہو کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی نے بھی ان اینکرز کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، لیکن شاید ان کو یہی میسج تھا کہ کسی بھی طرح کسی نمائندے یا کسی تجزیہ نگار سے یہ بات کہلوانی ہے کہ ٹیم میں اختلافات ہیں۔

اس طرح کی رپورٹنگ سے پاکستان اور کرکٹ ٹیم کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ بریکنگ نیوز کی خاطر غلط رپورٹنگ کرنا کسی بھی صورت صحافت کی خدمت نہیں۔ میڈیا کے ذمہ داران کو سوچنا چاہیئے کہ ہمارا میڈیا، جو پہلے ہی کافی متنازعہ ہے، اس طرح کے طرز عمل سے مزید متنازعہ ہوجائے گا۔

حجاب کے بارے میں میری ایک تحریر


آج بہت دنوں بعد اپنا پرانا بلاگ وزٹ کیا۔ کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ 2005ء میں، جب میں کراچی میں تھا، اس وقت نیٹ پر چیٹنگ کے دوران ایک امریکی نوجوان سے سوال جواب کے دوران کافی بحث ہوئی۔ بعد میں ہم اکثر آبس میں بات چیت کرتےتھے۔ موضوع اکثر اسلام اور 9/11 کے بعد کے حالات ہی ہوتے تھے۔ اس کا نام سیموئیل تھا۔ بحث کے دوران اکثر ہماری لڑائی بھی ہوجاتی۔ لیکن میں نا تجربہ کار ہونے کے باوجود اس کے سوالات کے جوابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے سامنے پیش کرتا۔ ایک دو سال تک یہ ہماری بات چیت جاری رہی۔ اسکوعربی سیکھنے کا شوق تھا۔ میں خود عربی سیکھ رہا تھا۔ اس کو بھی بتاتا۔ مندرجہ ذیل تحریر اس وقت میں نے سیموئیل سے بحث کے بعد لکھی تھی۔

Hijab is considered a sign of oppression of Muslim women by many non-Muslims. How could be it justified? They say, ‘Islam is taking the choice and freedom away from women.’ While they haven’t studied Islam and its laws, as they should. Or they have some knowledge about Islam, but they have studied Islam from such source that only search defects and short comings in Islam (though they are unable to find it).

To examine the objections about Hijab, we should understand it that Islam is a complete code of life. You are bound to obey a law in full, when you agree to follow it. Islam is a code of life, which have its own values and virtues, which differ from any other religion or culture. Islam is needed to be followed in all its commands. When we talk about the CHOICE, we should know that there is no choice after accepting a law. For example, when you become citizen of a country, or you get a visa of a specific country. You should abide by rules and regulations of that country. You can’t ask them that you want to do this and that, and you don’t want to do this and that. No, you have to follow the rules. Otherwise, they will refuse to give you citizenship or visa. Take the same example about Islam. When we have accepted Islamic laws and rules as they are true and revealed by Allah, then we don’t have any choice, to accept what we like and to reject what is objectionable to the World and its FREE culture. It is a logical justification of almost all Islamic laws.

Now, coming to the main purpose of Hijab, Islam wants to protect women’s modesty and their honour. It is described in the Holy Qur’an, that Muslim women should cover their body, so that they will be identified ( as a Muslim Women) and will not be molested.

Dr. Zakir Naik describes six criteria for Hijab:

1. The first criterion is the extent of the body that should be covered. This is different for men and men. The extent of covering obligatory on the male to cover the body at least from the navel to the knees. For women, the extent of covering obligatory is to cover the complete body except the face and the hands upto the wrist. If they wish to, they can cover even these parts of the body. Some scholars of Islam insist that the face and the hands are part of the obligatory extent of ‘hijab’. All the remaining five criteria are the same for men and women.

2. The clothes worn should be loose and should not reveal the figure.
3. The clothes worn should not be transparent such that one can see through them.
4. The clothes worn should not be so glamorous as to attract the opposite sex.
5. The clothes worn should not resemble that of the opposite sex.
6. The clothes worn should not resemble that of the unbelievers i.e. they should not wear clothes that are specifically identities or symbols of the unbelievers’ religions.

It was a logical justification of Hijab for women in Islam. You can send me your comments if you have some different view.

(26 April, 2005)

سراب


اپنے دوست کو صبح سویرے مسجد کے باہر اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر پہلے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ وہ بندہ جو کبھی 9، 10 بجے سے پہلے اٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہ میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں بچپن سے ہی جن بھوت سے ڈرتا تھا۔ پہلے تو خیال آیا کہ شائد کوئی جِن میرے دوست کی شکل بنا کر میرے سامنے کھڑا ہے۔ لیکن جب اس نے پاس آکر بات شروع کی، تو یہ وہم ختم ہوگیا۔

"مبارک ہو، نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔” اس نے خوشی سے کہا۔
مجھے اس کی بات کا بالکل یقین نہیں آیا۔

پھر اس نے تفصیل سے بتایا۔ یہ 13 اکتوبر 1999ء کی صبح تھی۔ پاکستانی عوام نے حلوے کی دیگیں تقسیم کرکے جنرل مشرف کا استقبال کیا۔ ہر طرف نئی حکومت کی آمد کی خوشی میں عوام پاگل ہو رہی تھی۔ اس وقت مجھے یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ ٹھیک دو سال بعد یہی لوگ سڑکوں پر آکر مشرف حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہوں گے۔

مشرف نے آکر بہت سارے اچھے کام بھی کئے۔ انہوں نے فوجی جوانوں کو سویلین اداروں میں بھی "مدد” کے لئے بھیجا۔ بہت سارے ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان اور اجمل خٹک جیسے لوگ بھی دھوکہ کھا گئے۔ بلاشبہ ابتدائی دنوں میں مشرف نے بد عنوان لوگوں کے خلاف جس طرح کریک ڈاؤن شروع کیا، اس سے یہی لگ رہا تھا کہ پاکستانی قوم کو ایک مناسب لیڈر مل گیا ہے، جو برسوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے کافی ہے۔

لیکن معلوم نہیں تھا کہ ہم اپنے مسائل کی صحرا میں سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ 9/11 کے واقعے نے تو پاکستان کی پالیسی کو یوٹرن پر مجبور کردیا۔ وہ لمحے ہمارے لئے ایک بہت ہی نازک مرحلہ تھا، اسکول اور کالج بند کر دیئے گئے۔ عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا گیا۔ ” سب سے پہلے پاکستان” کے سبز باغ دکھا کر پاکستانیوں سے ان کے خواب چھین لئے گئے۔

سب سے پہلے پاکستان، یہی نعرہ دے کر کیا کچھ نہیں کیا گیا پاکستان کے ساتھ ۔ کچھ بھی فیصلہ ہو، تاویل یہی دی جاتی ہے کہ جناب، یہ فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا گیا ہے۔ ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر کھویا ہی کھویا ہے، پایا کچھ نہیں۔ ہر حکومت کے آنے کے ساتھ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ شاید اس باراچھا ہو۔ شاید اس مرتبہ ہمارے مسائل حل ہوں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اس سیاسی نظام نے آج تک ہمیں کوئی مخلص لیڈر نہیں دیا۔ سارے کے سارے کرپٹ، موقع پرست اور چڑھتے سورج کے پجاری نکلے ہیں۔

آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ کب تک عوام کی خاموش اکثریت، جن کو مشرف اپنا حمایتی سمجھتا تھا، اس ظلم کو برداشت کرتا رہے گا؟ عوام کا باشعور طبقہ کب سامنے آکر ان لٹیروں سے مقابلہ کرے گا؟ شاید ہم سراب کے پیچھے ہی بھاگتے رہیں گے۔

اقبال جرم -(شہاب نامہ)


قدرت اللٰہ شہاب

9 جون 1938ء سے میں نے باقاعدہ ایک ڈائری رکھنے کی طرح ڈالی۔ یہ روایتی روزنامچہ کی صورت میں نہ تھی بلککہ میں نے اپنے ایک خودساختہ شارٹ ہینڈ میں ہر اس واقعہ یا احوال کو نوٹ کرنا شروع کردیا جو میرے نزدیک کسی خاص اثر یا اہمیت کے حامل تھے۔ رفتہ رفتہ یہ میری عادت ثانیہ بن گئی۔

ایک روز میں نے اپنے ان کاغذات کا پلندہ ابن انشاء کو دکھایا، تو وہ بہت ہنسا۔ میری مختصر نویسی میں درج کی ہوئی کوئی بات تو اس کے پلے نہ پڑی لیکن یہ ضرور پوچھا کہ 9 جون کی تاریخ سے یہ ڈائری شروع کرنے میں کیا راز ہے۔ اس وقت تو میں نے اسے کچھ نہ بتایا۔ البتہ جوصاحب اس کتاب کا آخری بات ”چھوٹا منہ بڑی بات“ پڑھنے کا بوجھ برداشت کرلیں گے، ان پر اس تاریخ کی حقیقت ازخود منکشف ہوجائے گی۔

کچھ عرصہ بعد ابن انشاء ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر علاج کی غرض سے لندن چلاگیا۔ اس کی وفات سے دو ڈھائی ماہ قبل میں‌اسے ملنے لندن گیا۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ ایک روز اچانک ابن انشاء نے کسی قدر مزاحیہ انداز میں اپنی زندگی کا جائزہ لینا شروع کردیا اور پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگا کہ اگر کسی ترکیب سے اسے دوبارہ دنیاوی زندگی مل جائے تو اسے وہ کس طرح گزارنا چاہے گا۔ اس کی تشنہ تکمیل تمناؤں، آرزوؤں اور امنگوں کی تفصیل اتنی طویل تھی کہ اسے سناتے آدھی رات بیت گئی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تمہیں دوبارہ زندگی نصیب ہو تو اسے کس طرح بسر کرنا چاہوگے؟

میں نے مختصراً جواب دیا کہ بہت سی کج فہمیوں، کمزوریوں، خطاکاریوں اور غفلتوں کی اصلاح کرکے میں دوسری زندگی بھی مجموعی طور پر ویسے ہی گزارنا چاہوں گا جیسے کہ موجودہ زندگی گزار رہا ہوں۔

یہ سن کر ابن انشاء چوکنا ہوگیا اور کاغذ پنسل ہاتھ میں لے کر سکول ماسٹر کی طرح حکم دیا ،”وجوہات بیان کرو، تفصیل سے۔“

میں خود احتسابی کی کدال سے اپنا اندر اور باہر کرید کرید کر بولتا رہا اور ابن انشاء ایس ایچ او کی طرح ایف آئی آر کے طور پر میرا بیان لکھتا رہا۔ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی فہرست یہ تھی۔

دین کے بارے میں میں کبھی شک و شبہ یا تذبذب میں‌گرفتار نہیں ہوا۔ دین کے متعلق میرا علم محدود اور عمل محدود تر ہے۔ اس کے باوجود اللٰہ تعالیٰ نے اپنی بے نیازی سے مجھے اسلام کی بعض جھلکیوں کی نعمت سے محروم نہیں رکھا۔

ایک دور افتادہ، پس ماندہ اور سادہ ماحول سے نکل کر میں‌ نے اپنے زمانے کی سب سے بڑی سول سروس کے مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا اور اللٰہ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔ سروس کے دوران میں‌ نے کبھی اپنی پوسٹنگ یا ٹرانسفر کے لئے کسی قسم کی کوشش، سفارش یا خوشامد سے کام نہیں لیا۔ اس کے باوجود اچھے سے اچھا عہدہ نصیب ہوتا رہا۔

ملازمت کے دوران میں نے دانستہ طور پر کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی جائز تنخواہ کےعلاوہ میں نے کبھی کسی حکومت سے مالی یا زرعی راضی یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ایک بار سربراہ مملکت نے مجھے آٹھ مربع زمین کا انعام دینے کی پیشکش کی۔ جب میں نے اسے قبول نہیں کیا تو انہوں نے کسی قدر ناراضگی سے اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ انسان کو انجام کار دو ڈھائی گز زمین کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہر کس و ناکس کو کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہے۔

ملازمت کے دوران میں نے اپنا کام ایمانداری اور بے خوفی سے کیا۔ اس کی پاداش میں چار بار استعفیٰ دینے کی نوبت آئی۔ چوتھی بار بعد از خرابی بسیار منظور تو ہوگیا لیکن میری پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ غالباً سزا کے طور پر تین برس تک رکے رہے۔ مجھے یہ تسلی ہےکہ مرزا اسد اللٰہ خان غالب جیسی ہستی کے ساتھ میری بس یہی قدر مشترک ہے کہ دونوں کو اپنی اپنی پنشن کے حصول میں یکساں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تین برس خاصی تنگدستی کا زمانہ تھا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کسی انسان کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

میں خود کسی کا دشمن نہیں ہوں، اور نہ ہی کسی اور کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ پہلی بات تو یقینی ہے، دوسری تخمینی۔ دوسروں کے دل کا احوال تو فقط اللٰہ ہی جانتا ہے۔ انسانوں کے درمیان باہمی تعلقات میں وقتاً فوقتاً رنجشیں، کدورتیں، نفرتیں اور تنازعے پیدا ہونا فطری امر ہے، میں ان کمزوریوں سے ہر گز مبرا نہیں۔ لیکن میں نے رنجشوں، کدورتوں اور تنازعوں کو ہمیشہ عارضی اور دوستیوں اور محبتوں کو ہمیشہ دائمی سمجھا ہے۔

میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کسی کی پیٹھ پیچھے وہی بات کہی جائے جو اس کے منہ پر دہرائی جاسکے۔ اس اصول کو پوری طرح نبھا تو نہیں سکا، لیکن کسی حد تک اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوتی رہی ہے۔

میں‌ نے اپنے خلاف تنقید یا الزام تراشی کا برداشت کرنا سیکھا ہے اور اس کے جواب میں‌تضحیک یا تردید کرنے سے گریز کیا ہے۔ البتہ بجا یا بے جا تعریف سن کر دل خوش ہوجایا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کمزوری پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھی۔ اللٰہ کا شکر ہے کہ اب بندہ کے لئے مدح و ذم دونوں یکساں ہیں۔

میں کبھی Frustrate یا بور نہیں ہوا۔
تنہائی کے احساس نے مجھے نہیں ستایا۔ میں اکیلے میں زیادہ خوش رہتا ہوں۔ خوش قسمتی سے مجھے ایسے دوستوں کی رفاقت نصیب ہوئی، جن کا اپنا اپنا رنگ اور اپنی شخصیت ہے۔ مثلاً ابن انشاء، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، واصف علی واصف صاحب، جمیل الدین عالی، ریاض انور، ایثار داعی، مسعود کھدر پوش، ابن الحسن برنی، اعجاز بٹالوی، ایوب بخش وغیرہ۔ یہ سب اپنے اپنے میدان کے منفرد شہسوار ہیں۔ باہمی محبت، خلوص، احترام اور اعتماد کے علاوہ ہمارے درمیان اور کوئی خاص قدر مشترک یا مقصدیت نہیں۔ اس کے باوجود ہر زمانے میں ہمارے تعلقات میں نہ کوئی کجی آئی ہے اور نہ کوئی کمی پیدا ہوئی ہے۔

خاص طور پر ممتاز مفتی انتہائی ذکی الحس، ضدی، بے باک اور شدت اور حدت پسند تخلیق کار ہیں۔ کسی وجہ سے میری کوئی حرکت انہیں پسند آگئی اور انہوں نے بیٹھے بٹھائے ایسی عقیدت کا روگ پال لیا کہ میرے چہرے پر مشک کافور سے مہکتی ہوئی حنائی داڑھی چسپاں کرکے، میرے سر پر دستار فضیلت باندھی اور سبز پوشوں کا پراسرار جامہ پہنا کر اپنی سدا بہار تحریروں کے دوش پر مجھے ایسی مسند پر لا بٹھایا، جس کا میں اہل تھا نہ خواہش مند۔ اس عمل سے ان کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا البتہ میرے لئے وہ ایک طرح کے مرشد کا کام دے گئے۔ ان کی وجہ سے میں صراط مستقیم پر ثابت رہنے پر اور بھی زیادہ مستعد ہوگیا تا کہ ممتاز مفتی کی عقیدت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ بظاہر میرا نفس تو بہت پھولا، لیکن اندر ہی اندر عرق ندامت میں غوطے کھاتا رہا۔ کیونکہ من آنم کہ من دانم۔

میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا۔

اس طرح کی زندگی کے علاوہ مجھے اور کیا چاہیئے؟ اب تو بس یہی جی چاہتا ہے

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

ابن انشاء نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ فہرست میرے حوالے کی، اور وصیت کی کہ اپنی ڈائری کی خفیہ نویسی کو بے نقاب کرو اور دلجمعی سے ایک کتاب لکھو۔ میں تو اسے پڑھنے کے لئے زندہ نہیں رہوں گا لیکن میری روح خوش ہوگی۔

حامی تو میں نے بھر لی، لیکن جب قلم اٹھایا تو ایک شدید الجھن میں گرفتا ر ہوگیا۔ مجھے احساس تھا کہ میں‌نے زندگی بھر کوئی ایسا تیر نہیں مارا جس پر شیخیاں بگھار کر اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر ادب کے میدان میں ایک برخود غلط تیس مار خان بننے کی کوشش کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا لکھوں؟ ——- کیسے لکھوں؟ ——— اور کیوں لکھوں؟ اسی شش وپنج میں کئی برس گزر گئے۔ رفتہ رفتہ میرے دماغ کی تاریک سرنگ میں روشنی کے کچھ آثار نمودار ہونا شروع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ جن واقعات، مشاہدات اور تجربات نے مجھے متاثر کیا ہے ان کی روئیداد بے کم و کاست بیان کردوں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شہاب نامہ سے اقتباس

ٹی وی


بچپن کے دن، جب گھر میں کسی بڑے بزرگ سے رات کے وقت کہانیاں سنتے تھے، ایک عجب دور تھا۔ بڑی شدت کے ساتھ اس وقت کا انتظار رہتا تھا کہ کب رات کا کھانا کھائیں اور کہانی سنیں۔ اکثر اوقات کہانی لمبی ہوجاتی تھی، اور باقی آئندہ کا کہہ کر زبردستی سونے کے لئے بھیج دیا جاتا۔ اس صورت میں اکثر نیند آنکھوں سے غائب ہوجاتی تھی۔ بہت برا لگتا تھا، کہ یونہی کہانی ختم کرنے سے پہلے سونے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔

پھر ٹی وی آیا۔ وہ دن کبھی نہیں بھولتے جب محلے میں‌ واقع اپنے رشتہ داروں کے گھر سب لوگ ٹی وی دیکھنے جمع ہوتے تھے۔ یادیں کچھ دھندلی سی ہیں، ایک بڑا سا ٹی وی میز پر رکھا ہوتا تھا، جس کی بلیک اینڈ وائٹ ڈسپلے اکثر انٹینا کی خرابی کی وجہ سے تصاویر کو غیرواضح کردیتی تھی۔ زمین پر چٹائی بچھادی جاتی تھی، جس پر بچوں کو بٹھادیا جاتا تھا، جبکہ نوجوان اور بزرگ چارپائیوں‌ پر بیٹھ جاتے تھے۔ بہت شدت سے اس لمحے کا انتظار رہتا تھا کہ کب ڈرامہ شروع ہو، جس کے لئے ایک ہفتہ انتظار کیا جاتا تھا۔ ڈرامہ دیکھتے وقت باقی سرگرمیاں موقوف ہوتی تھیں۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد ٹی وی بند کردیا جاتا تھا، اور ٹی وی کو کسی کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ دیا جاتا تھا، تاکہ گردوغبار سے محفوظ رہے۔ عموماً ٹی وی اگلے ہفتے ہی دوبارہ آن کیا جاتا۔

اس دور سے آگے بڑھیں تو رنگین ٹی وی کا زمانہ آیا۔ اگر چہ شہروں میں‌ بہت پہلے ہی کلر ٹی وی آچکا تھا، لیکن دیہات کے لوگوں کے لئے یہ ایک عجوبے سے کم نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ جب کلر ٹی وی ہمارے گاؤں میں آیا تھا، تو میں اکثر لوگوں سے سنتا تھا، کہ آج فلاں ڈرامہ دیکھنے جانا ہے، پتا ہے فلاں کے ہاں ایسا ٹی وی ہے جس میں ہر رنگ اصل دکھائی دیتا ہے۔ ڈرامے بھی اب ہفتے میں ایک کی جگہ تقریباً روزانہ کے حساب سے نشر ہونے لگے۔ اس وقت اکثر گھر سے چھپ کر یا کوئی بہانہ بنا کر اپنے دوست کے ہاں‌ بچوں کے ڈرامے دیکھنے جاتا۔

ڈرامہ دیکھنے کی خاطر کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ اکثر ٹی وی کا انٹینا خراب ہوجاتا تھا۔ اب اس کو صحیح رخ پر کرنے کے لئے چھت پر جانا پڑتا۔ انٹینا گھمانے کے ساتھ ساتھ زور زور سے آواز لگا کر پوچھنا بھی پڑتا، کہ ٹھیک ہوگیا کہ نہیں؟ اکثر چھت سے اترنے تک کوئی کوا انٹینا پر بیٹھ جاتا اور ٹی وی پھر خراب ہوجاتا۔ نتیجتاً پھر چھت کا دورہ کرنا پڑتا۔

تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔ ہائی اسکول اور اس کے بعد کالج کا زمانہ ہے۔ پہلے ڈش ٹی وی آیا۔ اس کے بعد کیبل نیٹ ورک آیا۔ ابتداء میں کچھ مزاحمت ہوئی۔ لیکن اس کو یہ کہہ کر ٹالا گیا کہ کیبل پر صرف پاکستانی چینل دکھائے جائیں‌ گے۔ خیر، پاکستانی چینل تو آٹے میں نمک کے برابر ہی رہے۔

کیبل کے آنے کے بعد حالت یہ ہوگئی کہ سینکڑوں چینل ہوگئے، جن پر ہر وقت ڈرامے اور فلم چلتے رہتے ہیں۔ کوئی وقت مخصوص نہیں رہا، ہر وقت فلم اور ڈرامے آپ کی پہنچ میں ہیں۔ ان فلموں اور ڈراموں کے گڑ میں پرائی تہذیبوں کا زہر ڈال کر ہمارے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے۔ ایسی کہانیاں فلمائی جاتی ہیں جن کا ہماری تہذیب سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور تو اور، آج کل کے پاکستانی ڈرامے چند فیصد امراء کے طبقے کی ہی نمائندگی کرتے ہیں، جن میں بڑی بڑی گاڑیاں، کوٹھیاں دکھا کر نوجوانوں کو غیر شعوری طور پر اسی طرز زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

شریف گھرانے بھی کیبل کے جال میں آہستہ آہستہ پھنستے ہیں۔ پہلے پہل جب ٹی وی لگاتے ہیں، تو بزرگوں کی طرف سے سخت آرڈرز ہوتے ہیں، کوئی غیر اخلاقی پروگرام یا سین بچے نہ دیکھ پائیں۔ اس لئے ریموٹ بڑوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی ایسا ویسا سین آیا، جلدی سے چینل تبدیل کرکے جیو ٹی وی لگالیا۔ دھیرے دھیرے یہ اہتمام کم ہوتا جاتا ہے۔ پھر ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ غیر مناسب سین آتےہیں تو ماں باپ چلاتے ہیں، ارے بیٹا بری بات ہے، چینل تبدیل کرلو۔ پھر یہ بات بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ ابتداء میں جو چیز بری لگتی ہے، بعد میں‌ نارمل ہوجاتی ہے۔

گزرے ہوئے دور پر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے، ہم نے واقعی بہت ترقی کرلی ہے۔ انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کا ایک سیلاب ہے، جو نئی نسل کو بہا کر لے جارہا ہے۔ ہر طرح کی معلومات آپ سے چند کلک کے فاصلے پر ہیں۔ لیکن وہ سکون جو امی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں ملتا تھا، وہ کہیں اور نہیں ملا۔ جو سکون رات کو کھلے آسمان کے نیچے سونے سے پہلے ستاروں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا تھا، وہ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں سونے سے نہیں ملا۔ ہم جس راستے پر جارہے ہیں، کیا وہ ہمیں ہمارا وہ سکون اور ذہنی اطمینان واپس لوٹاسکے گا؟

جمہوریت کا حسن


آج اسکول نہیں جا سکا۔ ہڑتال کی وجہ سے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اکا دکا گاڑیاں چل رہی تھیں لیکن اکثر سواریوں سے خالی، کیونکہ کوئی بھی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ چھٹی کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہے۔ چھٹی سے لطف اندوز ہونے کے لئے لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں، دریا میں تیراکی کرتے ہیں، لیکن میرا معاملہ تھوڑا الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں نا، مُلّا کی دوڑ مسجد تک، تو میری دوڑ حجرے تک۔ میں فارغ وقت میں حجرے جاکر اخبارپڑھتا ہوں، اور کریم چاچا کے فاضلانہ تبصروں پر سر دھنتا ہوں۔

آج بھی حسب معمول کریم چاچا حجرے کے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھے، حقے سے شغل کررہے تھے۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ اور دوسری چارپائی پر بیٹھ کر چپ چاپ اخبار پڑھنے لگا۔ حسب معمول انہوں نے موقع غنیمت جان کر حالات حاضرہ پر اپنی ماہرانہ رائے دینے کا ارادہ کیا، لیکن میں نے پہل کرتے ہوئے خود ہی ابتداء کی۔

‘کریم چاچا، آج اسکول نہیں جاسکا۔ ہڑتال کی وجہ سے گاڑیاں بہت کم نظر آرہی ہیں۔’ میں ابھی مزید کچھ کہنے کا سوچ رہا تھا، کہ کریم چاچا نے بولنا شروع کیا۔

‘ہاں بھئی مجھے بھی کچھ کام تھا، لیکن کیا کریں ان کم بختوں کا، ہر مسئلے کا حل ہڑتال میں ڈھونڈتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا ٹیکسی میں جاؤں، لیکن کوئی رسک لینے کے موڈ میں نہیں۔ کیونکہ آج کل ہڑتال کی خلاف ورزی کرنے والوں کی گاڑیاں بھی اکثر جلا دی جاتی ہیں۔’

‘ ہاں، مجھے بھی گھر سے منع کردیا گیا، کہ آج اسکول نہ جاؤ۔ امتحانات بھی سر پر ہیں۔ بہت نقصان ہوجاتا ہے، اس طرح کی چھٹیوں سے۔’ میں نے ان کے دل میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کرنے کے لئے کہا، حالانکہ میرا دل کرتا تھا کہ ہر ہفتے کسی نہ کسی بہانے اسکول سے چھٹی ہو۔ پچپن اور لڑکپن تو کھیلنے کودنے کا دور ہوتا ہے۔ بعد میں تو انسان پیسے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے سیدھا قبر میں جا پہنچتا ہے۔

‘ارے بیٹا، تم گھر پر رہ کر بھی ہوم ورک کرسکتے ہو نا۔ خیر، تم خود سمجھدار ہو۔ یقین کرو میرا بس چلے تو ان سیاستدانوں کو اکٹھا کرکے سمندر میں پھینک آؤں۔ جب بھی دیکھو ہنگامہ آرائی اور ہڑتال۔ معیشت کا ستیاناس کردیا ہے ان لوگوں نے۔’ غلطی کسی کی بھی ہو، کریم چاچا اپنا غصہ ہمیشہ سیاستدانوں پر نکالتے تھے۔

‘لیکن چاچا، آج کی ہڑتال تو ٹرانسپورٹروں کی طرف سے ہے، اس میں سیاستدانوں کا کیا کام؟’ مجھے پتا تھا اب کریم چاچا سیاستدانوں کی شان میں اپنے مخصوص اسٹائل میں قصیدے پڑھنا شروع کردیں گے۔

‘ارے تم کیا جانو، یہ سیاست بھی بہت عجیب کھیل ہے۔ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ کس طرح سیاسی رویے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔’ کریم چاچا حقے میں تمباکو بھرتے ہوئے کہنے لگے۔ ان کو حقے سے بہت لگاؤ تھا۔ میں بچپن ہی سے ان کو حقہ پیتے ہوئے دیکھتا چلا آرہا ہوں، اور حقے سے نکلنے والے دھویں کو پکڑنے کی کوشش میں ادھر ادھر چھلانگیں لگاتا تھا۔ ایک بار ان سے پوچھا، آپ ہر وقت حقہ کیوں پیتے ہیں؟ کہنے لگے، یہ فکر اور غموں کو پھونکوں میں‌ اڑانے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس دن کے بعد میں نے حقے سے نکلنے والے دھویں کا تعاقب چھوڑ دیا۔ اپنے غم کچھ کم نہیں تھے کہ ان کے غم بھی اپنے سر لیتے۔

‘میں سمجھا نہیں۔ سیاست دانوں کے رویے معاشرے پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟’ میں واقعی ان کی بات سن کر الجھ گیا تھا۔

‘ارے بہت آسان بات ہے۔ لاؤ، یہ اخبار مجھے دے دو۔’ میں نے اخبار ان کو دے دیا۔ انہوں نے دو تین صفحے الٹ پلٹ کر دیکھے، پھر مجھے کہنے لگے،

‘یہ دیکھو، تازہ خبر ہے۔ اساتذہ کا اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج۔ طلبہ گروہوں میں تصادم، لڑائی کے بعد روڈ بلاک، گاڑیوں پر پتھراؤ۔ ڈاکٹروں کا ہسپتال انتظامیہ کے رویے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ دیرینہ دشمنی کی بناء پر دو گروہوں میں‌تصادم، 4 افراد ہلاک، مرنے والوں کے لواحقین نے میتیں سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کردی۔ اس کے علاوہ یہ خبر دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ اتنی ساری خبریں سن کر میں ان کے ساتھ بحث نہیں کرسکتا تھا، اس لئے مجبوراً ان کو بیچ میں‌روکنا پڑا،

‘کریم چاچا، لیکن یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔’ میں نے کسی جگہ پر پڑھا ہوا ایک جملہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ موقع کی مناسبت سے استعمال کیا۔

‘گرگٹ کے رنگ بدلنے کو اگر حسن کہا جائے تو ایسا کہنے والوں کی عقل پر افسوس کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔’ کریم چاچا شاید میری عقل پر افسوس کررہے تھے، حالانکہ یہ جملہ میرا اپنا نہیں تھا، بلکہ کسی جگہ سے مستعار لیا گیا تھا۔

‘مجھے تو ایک بات سمجھ نہیں آتی، کیا ہر مسئلے کا حل احتجاج میں ہی رکھا ہے؟ میں مانتا ہوں، کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں، جب بحیثیت قوم ہمیں دنیا کے سامنے اپنی آواز اٹھانے کے لئے ریلیوں اور جلوسوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن ہر چھوٹے بڑے معاملے کے لئے ہڑتال اور جلوس نکالنا ملک اور قوم کے نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔’ کریم چاچا آج کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے تھے، میں سوچ رہا تھا، شاید ان کو کچھ زیادہ ہی اہم کام تھا، جو ہڑتال کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا۔ اس کا غصہ اب وہ نکال رہے تھے۔

‘ ویسے چاچا، یہ ہڑتال کے دوران ٹائر جلانے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟’ میں نے اپنی الجھن ان کے سامنے رکھی۔

‘ارے تمہیں یہ بھی نہیں‌معلوم؟ ارے شہر میں اپنے رشید کی دکان ہے اسکریپ کی۔ اس کے پاس پرانے ٹائر اچھی خاصی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس کا کاروبار آج کل بہت اچھا چل رہا ہے۔ کہیں پر بھی ہڑتال اور مظاہرے ہوں، اس کی دکان سے پرانے ٹائر لے کر جلائے جاتے ہیں۔’ کریم چاچا شاید مذاق کے موڈ میں تھے۔

‘اچھا، یہ تو مجھے معلوم نہیں تھا۔ لیکن ان ہڑتالوں اور مظاہروں سے کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے؟’

‘ہاں، فائدے بھی ہیں، لیکن اس کے لئے معاشرہ پوری طور پر جمہوری ہونا چاہیئے۔ ہم نے جمہوری معاشروں سے صرف منفی پوائنٹس لئے ہیں۔ ان کی اچھی باتیں قبول نہیں کی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بہت ساری اچھی باتیں انہوں نے ہمارے دین سے ہی لی ہیں۔ ہم صرف ان لوگوں کی خراب عادات کو اپنا لیتے ہیں۔ مظاہرے وہ بھی کرتے ہیں، لیکن ہماری طرح نہیں، کہ اپنے ہی لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر اپنے غصے کا اظہار کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ کریم چاچا مجھے پوری طرح تفصیل سے سمجھانے لگ گئے تھے۔

میں بھی کریم چاچا کے ساتھ بحث میں پڑ کر اخبار پڑھنا بھول گیا تھا۔ دوبارہ ان سے اخبار لے کر پڑھنا شروع کیا، لیکن وہ اپنا تبصرہ شاید پورا کرنے کے موڈ میں تھے۔ ان کی باتیں ایک بار شروع ہوجائیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں‌ لیتی۔ شاید ان کی اس عادت کی وجہ سے لوگ ان کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں۔

‘ویسے میرا بس چلے تو ان مظاہرے کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دلواؤں۔ میرا شہر جانا بہت ضروری تھا، کم بختوں‌کو آج کے روز ہی ہڑتال یاد آئی۔’ کریم چاچا کو آج شہر جانے کی پڑی تھی، ہڑتال نے ان کا شہر جانا مشکل کردیا تھا۔ اب اسکا غصہ وہ ان لوگوں کو کوس کر اتار رہے تھے۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا، اور اخبار رکھ کر چپکے سے حجرے سے نکل آیا۔

داتا دربار پر حملہ


داتا دربار لاہور کی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں‌ پر دن رات زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ نذر و نیاز کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر طبقے کے لوگ وہاں آتے ہیں۔ داتا دربار بریلوی مکتبہ فکر کے لئے ایک اہم مقام کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے بعض مبصرین داتا دربار پر حملے کو فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کا ایک حربہ سمجھتے ہیں۔

کل رات کو داتا دربار پر خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خبر سن کر پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی۔ شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے وطن پاکستان کی سلامتی کی دعا بھی لبوں پر تھی۔ مختلف مکاتب فکر کا اختلاف اپنی جگہ، لیکن سید علی ہجویری رحمۃ اللٰہ علیہ سارے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ اس خطے میں اسلام کی اشاعت میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ان کے مزار کو اس طرح نشانہ بنانا ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں خودکش حملے ایک معمول بن چکے ہیں۔ ہر حملے کے بعد رٹا ہوا ایک بیان میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، کہ حملہ آوروں کے سر مل گئے ہیں۔ تفتیش شروع کی گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں یہ تفتیش بھی فائلوں کا پیٹ بھرنے کے کام آتی ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے لاہور کو جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کے پیچھے بہت سارے عوامل اور بڑی طاقتوں کا مفاد ہے۔

کچھ عرصے سے میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ خبریں پھیلائی جارہی ہیں، کہ جنوبی پنجاب طالبان کا مرکز بن چکا ہے۔ آپریشن کے خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اگر چہ یہ خبریں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کی سیاسی چپقلش میں دب کر رہ جاتی ہیں، لیکن وقفے وقفے سے خودکش حملے اس ایشو کو دوبارہ میڈیا میں زندہ کردیتے ہیں۔

موجودہ حملے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے۔ شاید پنجاب کی حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں آپریشن شروع کرے۔ اس کے بہت دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ پہلے ہی آپریشنز کے ردعمل کی آگ میں جل رہا ہے، اب پنجاب کو بھی اس آگ میں دھکیلنے کی تیاریاں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں آپریشن سے ملک کو کچھ فائدہ ہو نہ ہو، پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے ایک اور ثبوت ضرور ہوگا۔ بدامنی پہلے ہی سارے ملک کی معیشت کو تباہ کررہی ہے۔ اب نئے آپریشن کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا پاکستان کی کمر توڑ دینے کے مترادف ہوگا۔

حملہ آور چاہے طالبان ہوں یا بلیک واٹر کے لوگ (ایک عام تاثر ہے)، حملے کے لئے جس مقام کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ بہت ساری باتیں صاف کردیتا ہے۔ بریلوی مکتبہ فکر کو طالبان کا مخالف سمجھا جاتا ہے، کیونکہ طالبان کی اکثریت کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے۔ اس لئے داتا دربار پر حملہ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دیوبندی طالبان داتا دربار پر ہونے والے محافل کو روکنے کے لئے حملہ کررہے ہیں۔ اس طرح ملک کے دو بڑے مکاتب فکر کے لوگوں کو آپس میں لڑوانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اب یہ ان دونوں مکاتبِ فکر کے اکابرین پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو اپنی پرانی رنجشوں اور اختلافات کی بھڑکتی ہوئی آگ میں تیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یا پھر اس موقع کو آپس میں اتحاد اور یگانگت کے لئے استعمال کرتےہیں۔ یہ ان دونوں مکاتب فکر کے رہنماؤں کی بصیرت کا امتحان ہے۔

بچپن کی یادیں – 5


ہائی اسکول میں داخلہ لیا تو ایک نئی دنیا آنکھوں کے سامنے تھی۔ ایک چار کمروں والے اسکول کے مقابلے میں ایک وسیع و عریض اسکول، جس میں ہر کلاس کی 5 سے زیادہ سیکشنز تھیں۔ میرے لئے یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔

kids_playing

ہماری کلاس 6th کے باقی کلاسوں کی طرح اسکول کے دوسرے کونے میں تھی، جبکہ بیچ میں گراؤنڈ تھی۔ اسی گراؤنڈ سے ملحق ایک والی بال گراؤنڈ بھی تھی، جس میں سالانہ بنیادوں پر والی بال ٹورنامنٹ منعقد ہوتے تھے۔ ایک روز ایک ساتھی پلاسٹک کی گیند لے کر آیا تھا۔ باتوں باتوں میں سب دوستوں نے طے کیا کہ چلو آج فٹ بال کھیلتے ہیں۔ اس روز تو سب کو بہت مزہ آیا۔ دھیرے دھیرے دوسرے ساتھی بھی جمع ہونے لگے۔ اس طرح دو ٹیمیں بنا کر روزانہ اسکول کے ٹائم سے پہلے میچ ہوتا تھا۔ ہم لوگ صبح سویرے ہی پہنچ جاتے تھے۔ یہ سلسلہ آٹھویں جماعت تک جاری رہا، حتیٰ کہ کچھ دوستوں کے درمیان کھیل کے دوران پھوٹ پڑ گئی، اور انہوں نے فارم ماسٹر سے شکایت کرکے کھیل بند کرودایا۔

چھٹی جماعت کے دوران ہی کچھ دوست بن گئے تھے۔ کچھ لڑکوں سے صرف سلام دعا تھی۔ ان میں سے ایک دوست (نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا) بہت غریب تھے۔ ان کے کپڑے دیکھ کر اکثر ہم اپنی حالت پر شکر ادا کرتے تھے، کہ اللٰہ نے ہمیں بہت سے لوگوں سے اچھا نوازا ہے۔ خیر، ایک روز بیٹھے بیٹھے یہ بات طے ہوگئی کہ ہمیں اپنے دوستوں کی مدد کرنی چاہیئے۔ طے ہوا کہ ہم اپنا جیب خرچ بچا کر پیسے اکٹھے کریں گے، اور مستحق دوستوں کے لئے کپڑے یا اسکول کی کتابیں خرید کر دیں گے۔

اسکول کے سامنے فوٹواسٹیٹ کی ایک دکان تھی۔ میری لکھائی چونکہ اچھی تھی، اس لئے میں نے ایک صفحے پر پمفلٹ سا بنا کر لکھا، کہ ہم اپنے دوستوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ میں سے کوئی ہمارا ساتھ دینا چاہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔

اب یہ معمہ تھا کہ دوستوں کی اس ٹولی کو کیا نام دیا جائے، جو پمفلٹ پر لکھا جائے۔ بہت غوروخوض کے بعد یہ فائنل ہوا کہ چونکہ ہم لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اس لئے اس ادارے کا نام انجمن خدمت خلق ہونا چاہیئے۔ اسی نام سے ایک دوسرا ادارہ تھا ہمارے گاؤں میں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نام رکھا تھا۔

نام فائنل کرنے کے بعد پمفلٹ لکھ کر فوٹواسٹیٹ کاپیاں کروائی گئیں۔ سب سے پہلے تو ہم نے اپنی کلاس کے سارے لڑکوں میں تقسیم کئے۔ اکثر دوستوں کی طرف سے اچھا ردعمل سامنے آیا۔ ہم چند دوستوں نے مل کر اپنی جیب خرچ جمع کرنی شروع کردی، جو کہ 1996ء میں 1 سے 2 روپے روزانہ ہوتی تھی۔ باقی دوستوں نے بھی دیکھا دیکھی دلچسپی لینا شروع کی۔ اس طرح دو ہی ہفتوں میں ہمارے پاس 100 روپے سے زیادہ رقم جمع ہوگئی۔

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، اس کے بعد ہمیں ہمت ہوئی تو باہمی مشورے کے بعد اپنے اساتذہ سے بھی اس سلسلے میں مدد لینے کی ٹھان لی۔ ہماری توقع کے برخلاف، تقریباً سارے اساتذہ کرام نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ کسی نے تعریف کی، کسی نے کہا اچھی سوچ ہے۔ کسی نے باقاعدہ پیسے بھی جمع کروائے۔ اس سے ہمیں حوصلہ ملا۔

اسی دوران کچھ دلچسپ واقعات بھی پیش آئے۔ ہم نے ادارے کا نام انجمن خدمت خلق رکھا تھا۔ اسی کا انگلش میں بھی ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب چھٹی جماعت میں اچھا ترجمہ کرنے سے تو رہے۔ سوچ سوچ کر یہی طے پایا کہ لفظی ترجمہ کیا جائے، جو کچھ یوں بنا:
Peoples Helping Association

ہم نے جب اساتذہ سے بات کرنی شروع کی، تو وہ پمفلٹ بھی ساتھ میں دیتے تھے۔ ایک استاد نے پمفلٹ پڑھ کر پہلے تو ہمارے کان مروڑے، پھر کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کے لئے کام کیا تو ایسے ہی کان مروڑے جائیں گے۔ پہلے تو مجھے ان کی بات کچھ سمجھ نہیں‌ آئی لیکن بعد میں جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب اس انگریزی ترجمے کا شاخسانہ ہے۔ خیر، انہوں نے بہت حوصلہ افزائی کی، اور باقاعدہ حصہ بھی لیا اس کام میں۔

ایک دوسرے استاد تھے ہمارے، بہت ہی مہربان اور شفیق انسان تھے۔ اللٰہ ان کو خوش رکھے۔ وہ کسی حادثے میں ایک ٹانگ سے معذور ہوگئے تھے۔ اس لئے مصنوعی ٹانگ سے لاٹھی کے سہارے چلتے تھے۔ ایک دن وہ بھی کلاس میں آئے تو ہم نے انہیں بھی اپنی بات بتائی کہ ہم اپنے دوستوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہماری بات سننے کے بعد کہا، ٹھیک ہے، وہ لڑکا کون ہے جس کی تم لوگ  مدد کرنا چاہتے ہو؟

ہم نے پہلے ہی باہمی مشورے سے ایک دوست کا نام فائنل کیا تھا۔ اسی کا نام ان کو بتا دیا۔ انہوں نے سنتے ہی کہا، ارے وہ نالائق لڑکا؟ ارے وہ تو فیل ہوجائے گا۔ پھر اس کو کپڑے دینے کا کیا فائدہ؟ ہم نے کوشش کی کہ ان کو قائل کرسکیں، لیکن ان کو وہ لڑکا بالکل پسند نہیں تھا، اور اپنی لاٹھی سے اس کی طرف اشارہ کرکے کہتے، نہیں نہیں یہ فیل ہوجائے گا۔

امتحانات بھی قریب تھے۔ امتحانات کے بعد سب دوستوں نے مل کر جمع شدہ رقم سے اسی لڑکے کے لئے اسکول یونیفارم خرید کر اسے دیا۔ سب دوستوں کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے، کہ بالآخر ہم کسی کے کام آسکے۔ خوشی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لڑکا بھی پاس ہوگیا تھا، جس کے فیل ہونے کی پیشنگوئی ہمارے استاد محترم نے کی تھی۔

ہمارا ارادہ تھا کہ اس ادارے کو آگے بھی جاری رکھا جائے، لیکن ہم ایسا نہ کرسکے۔ تھے تو لڑکے ہی، آج کی بات کل بھول جانے وال
ے!

مرزا اور سودائی


دروازے کو کھٹکھٹانے کی آواز سن کر سودائی اپنے خیالات سے چونک کر دیکھتا ہے، اور بھاگ کر دروازہ کھول لیتا ہے۔ سامنے مرزا کھڑا ہوتا ہے۔

” السلام علیکم، یار اتنا وقت لگا دیا، میں کب سے دروازے پر کھڑا ہوں۔“ مرزا تھوڑی ناراضگی سے بولتا ہے۔

سودائی اس کی بات کو سنی ان سنی کرتا ہوا، اس کو اپنے ساتھ لے کر کمرے میں جاتا ہے۔ مرزا بھی اس کے پیچھے پیچھے چل کر جاتا ہے۔ کمرے میں بیٹھ کر باتیں شروع کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مرزا پوچھتا ہے، ” یار سودائی، میرے قرض کا کیا ہوا؟ مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔“

سودائی پہلے تو اسے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن مرزا کا چہرہ دیکھ کر اسے اندازہ ہوجاتا ہے، کہ آج تو مرزا قرض کی وصولی کا مصمم ارادہ کرکے آیا ہے۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہتا ہے، ” ارے یار فکر مت کرو، میں نے ایک حل سوچا ہے۔“

مرزا جو تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہے، ایک دم سیدھا ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ ”واقعی؟ مجھے پتا تھا، تم واقعی میرے اچھے دوست ہو۔ تو پھر کیا سوچا ہے میری رقم واپس کرنے کے بارے میں؟“

” بتاتا ہوں، پہلے تمھارے لئے گڑ کا شربت بنالوں، بہت گرم موسم ہے۔ شربت پی کر دماغ ٹھنڈا کرلو، پھر بات کرتے ہیں۔“ یہ کہہ کر سودائی شربت بنانے لگ جاتا ہے۔ گڑ ڈالنے کے بعد ایک لیموں کو نچوڑ کر اس کا رس شربت میں ڈالتا ہے۔ اتنے میں مرزا پھر کہنے لگتا ہے، ”ارے بتاؤ بھی یار، کیوں اتنے مخمصے میں رکھنا چاہتے ہو مجھے؟“

” ٹھیک ہے تو سنو۔ میں یہ جو شربت میں لیموں کا رس ڈال رہا ہوں، اس کے ساتھ لیموں کا بیج بھی اس شربت میں شامل ہورہا ہے۔ میں اس بیج کو نکال کر سنبھال کر رکھ لیتا ہوں۔ کل اپنے کھیت میں جاکر اسے بو لوںگا۔ کچھ ہی دنوں میں لیموں کا پودا بن جائے گا، اور مسلسل نگہداشت سے ایک دو سال میں اس پر لیموں لگنا شروع ہوجائیں گے۔ میں لیموں لے کر بازار جاؤں گا، اور بیچ کر تمہارے پیسے چکادوں گا۔“ سودائی اپنی بات ختم کرکے داد طلب نگاہوں سے مرزا کی طرف دیکھتا ہے۔

مرزا کو یہ تجویز کچھ اچھی نہیں لگی، اس کا اثر اس کے چہرے پر ظاہر ہوگیا تھا۔ سودائی نے مرزا کی ناراضگی بھانپ لی، اس لئے شربت پلاتے ہوئے کہنے لگا، ”کیوں میری تجویز اچھی نہیں لگی؟“

”تجویز اچھی ہے، لیکن بہت وقت لگے گا یار۔ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔“ مرزا نے بے دلی سے کہا۔

سودائی کچھ دیر خاموش رہتا ہے۔ پھر مرزا کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی بھرے لہجے میں کہتا ہے، ”ٹھیک ہے۔ میں نے ایک اور راہ نکالنے کا سوچا ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ مرزا اس کی بات کاٹ کر کہتا ہے،” اچھا؟ وہ کیا؟“

”ارے یار بات تو پوری کرلینے دو۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ پہاڑی کے دامن میں میری کچھ زمین ہے۔ وہاں پر فصل تو کاشت کرنے سے رہے، البتہ بہت ساری خاردار جھاڑیاں جمع کرکے اپنے کھیت کے اردگرد رکھ لیتا ہوں۔ پہاڑی کے آس پاس بہت سارے گڈرئیے اپنی بھیڑیں چَرانے آتے ہیں۔ جب بھیڑیں وہاں سے گزریں گی، تو جھاڑیوں سے لگ کر تھوڑا تھوڑا اون جھاڑیوں میں رہ جائے گا۔ میں وہاں سے اون جمع کرکے گھر لے کر آیا کروں گا۔ جب اون جمع ہوجائے گا تو میں اس سے شال بنالوں گا۔ وہ شال لے کر بازار میں بیچ کر تمہارا قرض چکادوں گا۔ کیسا رہا میرا یہ منصوبہ؟“ سودائی اس بار امید بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔

مرزا کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی، ”ارے واہ، نقدی دیکھ کر کیسی باچھیں کھل گئیں تمہاری!“

یہ سن کر مرزا ہنستے ہوئے کہنے لگتا ہے، ”رہنے دو یار۔ مجھے نہیں چاہیئے پیسے۔“

کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد مرزا سودائی سے پوچھتا ہے، ” یار یہ تو بتاؤ، تم نے کبھی نوکری یا کاروبار بھی کیا ہے؟“

”ہاں، ایک جگہ نوکری کی تھی۔“ سودائی نے کہا۔

”اچھا؟ میں تو سمجھ رہا تھا، کہ تم بہت نکمے ہو، لیکن تم نے کام بھی کیا ہے۔ بتاؤ تو، کیا نوکری تھی؟ویسے تمہیں کس خوبی کی بنیاد پر نوکری ملی؟“ مرزا مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔

”ارے رہنے دو یار! پھر کبھی سہی۔ نوکری اس بات پر ملی تھی کہ میں چونکہ ہر وقت کچھ نہ کچھ اوٹ پٹانگ سوچتا رہتا ہوں، اس وجہ سے مجھے رات کو نیند نہیں‌ آتی، تو میں چوکیداری کے لئے موزوں تھا۔“ سودائی اس بات کو آگے بڑھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔

”کیوں رہنے دوں؟ بتاؤ نا، کام کیا تھا، تنخواہ کتنی تھی۔۔۔۔۔۔۔“

”ٹھیک ہے، تم پیچھا نہیں چھوڑ رہے تو سنو۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ مجھے اس وقت نوکری کرنے کا شوق ہوا تھا۔ اس شوق میں دہلی کے ایک تاجر کے ساتھ بطور معاون کام شروع کیا۔ وہ دہلی سے افغانستان سامان لے کرجاتا تھا۔ وہاں پر سامان بیچنے کے بعد کچھ گھوڑے خرید کر واپس دہلی آتا تھا۔ میری ذمہ داری یہ تھی کہ سفر کے دوران سامان کا خیال رکھوں، تا کہ چور اچکے یا راہزن لوٹ کر نہ لے جائیں۔“ سودائی بات کر رہا تھا کہ مرزا نے بات کاٹ کر کہا،

”تو تمہارے پاس ہتھیار بھی ہوتا تھا، یا خالی ہاتھ حفاظت کرنے پر مامور تھے؟“

”بندوق تھی میرے پاس، جس کو میں کمر سے لٹکا کر رکھتا تھا۔ خیر، دہلی سے کابل جاتے ہوئے راستے میں رات گزارنے کے لئے رکے۔ ویران اور سنسان علاقہ تھا، مالک نے مجھ سے کہا، دیکھو سودائی، یہ علاقہ تھوڑا خطرناک ہے، تم سونا مت۔ میں کچھ دیر آرام کرلوں تو پھر اٹھ کر سامان کی چوکیداری کرلوں گا، تب تک تم جاگتے رہنا۔

میں نے کہا، جناب بے فکر ہوکر سو جائیں۔ مجھے ویسے بھی نیند نہیں آتی۔ کیونکہ میں رات بھر سوچتا رہتا ہوں۔ وہ یہ سن کر ہنس کر کہنے لگے، اچھی بات ہے، لیکن جاگتے رہنا۔ بہرحال میں نے ان کو یقین دلایا، اور وہ میری بات پر یقین کرکے سوگئے۔

کچھ دیر بعد ان کی آنکھ کھلی۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگے، سودائی، کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے کہا، یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ کانٹوں کے سرے اتنے تیز کیوں ہوتے ہیں؟ یہ سن کر وہ ہنسنے لگا، اور کہا، اچھی سوچ ہے۔ لیکن جاگتے رہنا۔ یہ کہہ کر وہ کروٹ بدل کر سوگئے۔

آدھی رات گزرنے کے بعد پھر ان کی آنکھ کھل گئی۔ مجھے جاگتے دیکھ کر کہنے لگے، سودائی کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے کہا، یہ سوچ رہا ہوں، یہ بکری کی مینگنیاں گول گول کیوں ہوتی ہیں؟ یہ سن کر وہ بے اختیار ہنسنے لگے۔ کہا، بہت اچھی سوچ ہے، لیکن جاگتے رہنا۔ مجھے یہ ہدایات دے کر وہ پھر سو گئے۔

رات کے آخری پہر ان کی آنکھ کھلی۔ حسبِ عادت مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے، سودائی، کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے کہا، یہ سوچ رہا ہوں، کہ سامان تو چور لے گئے، اب گھوڑے آپ لے کر جائیں گے کہ میں؟“

اتنا سننا تھا کہ مرزا پر ہنسی کا دورہ پڑگیا۔ ہنستے ہوئے پوچھنے لگا، ”اچھا، تو چور سامان لے کر گئے؟ لیکن تم تو جاگ رہے تھے؟“

”بس یار، رات کے آخری پہر میں آنکھ لگ گئی تھی۔ چور بھی اسی وقت اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔“ سودائی اس کی ہنسی کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا۔

”اچھا، انہوں نے کیا کہا، ظاہر ہے چوری ہوگئی، اس بیچارے کا تو بہت نقصان ہوگیا۔“

”اس نے کیا کرنا تھا۔ نوکری سے فارغ کردیا۔“ سودائی سر کجھاتے ہوئے کہنے لگا۔

”یار، یہ تو بہت برا ہوا۔“ مرزا نے تعزیت کے انداز میں کہا۔

(بہت پہلے پشتو کی کہانی مرزا اور سودائی پڑھی تھی۔ پوری کہانی تو یاد نہیں، لیکن اس کا کچھ خاکہ میرے ذہن میں‌ تھا۔ اسی کو یہاں‌ پر پیش کیا ہے۔)