Category Archives: سیاست

ایک انقلابی کی ڈائری



ہمیں حالات حاضرہ کے بارے میں جاننے اور تبصرہ کرنے کا بہت شوق ہے۔ یہ نہ تو ہماری تعلیم کا کمال ہے نہ ہمارے تجربے کا، یوں سمجھئے جیسے ہمیں یہ شوق ورثے میں ملا ہو۔ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر تبصرے ہوں، یا ملک کے حالات کے بارے میں ماہرانہ رائے کا اظہار، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے چھپی سازش کا سراغ لگانا ہو، یا امریکی و برطانوی سازشوں سے پردہ اٹھانا ہو، ہم ہر فن مولا ہیں۔

ایسی بات نہیں کہ ہم کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ ہمارا دن کافی مصروف گزرتا ہے، صبح اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، پھر نماز کے بعد مسجد میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اس ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس لئے ان کی حکومت کے خاتمے کی اجتماعی دعا کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

ناشتے کے بعد ہم دفتر جاتے ہیں۔ دفتر میں چونکہ کام زیادہ ہوتا ہے، اس لئے اخبار ساتھ لے کر دراز میں رکھ لیتے ہیں کہ اگر موقع ملا تو کچھ ملکی حالات سے واقفیت حاصل ہوسکے گی۔ 10 بجے کی چائے پر دفتر کے ساتھی کینٹین میں جمع ہوتے ہیں۔ سب کا یہی رونا ہوتا ہے کہ اس حکومت نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ یہ بحث کبھی کبھار طول پکڑ جاتی ہے اور ہمیں بحث کو ختم کرنے کے لئے اخباری تراشے اور حوالے دینے پڑتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ دفتری سرگرمی نہیں لیکن ملک کی بہتری کے لئے ہم رضاکارانہ طور پر یہ خدمات انجام دیتے ہیں۔

خدا بھلا کرے مارک زکربرگ کا، جنہوں نے ہم جیسے سیاسی کارکنوں پر فیس بک کی شکل میں ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔ فیس بک کو ہم آگاہی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے فیس بک پیج پر10، 12 تبصرے تو ہم روزانہ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ روزانہ کا کام ہے اس لئے ہمیں زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ اکثر پوسٹیں "ماشاء اللہ، سبحان اللہ ، واہ واہ، میرا لیڈر شیر ہے، میرے لیڈر کی سادگی دیکھو، لیڈر ہو تو ایسا، میری پارٹی زندہ باد، وغیرہ جیسے جملوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔

اس کے بعد ہم اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کے فیس بک پیجز پر جاتے ہیں اور وہاں پر لوگوں کو ان کی اصلیت سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہمیں کبھی کبھار فوٹو شاپ کا سہارا لینا پڑتا ہے، لیکن چونکہ یہ کام آگاہی اور اصلاح کی نیت سے کیا جاتا ہے، اس لئے ہمارا یقین ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہم بھلے مخالف پارٹی والوں کی تصویروں سے سر کاٹ کر کہیں اور فٹ کردیں، یا کسی ڈانس پارٹی کی تصاویر شئیر کریں، ہماری نیت اس قوم کی اصلاح ہے۔ تصویروں کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو ان پارٹیوں کی منافقت سے بھی آگاہ کرتے ہیں، اور ان کے دوغلے پن کی مذمت مہذب انداز میں کرتے ہیں۔ ہمارے ایسے پوسٹ کچھ یوں ہوتے ہیں: لعنت، لکھ دی لعنت، درفٹے منہ، گو ۔۔۔۔ گو، ۔۔۔۔ کی منافقت وغیرہ وغیرہ۔

چونکہ ہم اور ہماری پسندیدہ سیاسی جماعت کبھی غلط نہیں ہوسکتی، اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے اچھے اور کھرے صحافی ہمارے لیڈروں کے حق میں کالم لکھیں گے۔ اکثر صحافی ایسا کرتے بھی ہیں۔ لیکن پھر ان کی مالی اور سیاسی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں، اس لئے وہ لفافہ وصول کرکے ہمارے لیڈروں کی کردارکشی شروع کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے اپنا یہ اصول بنا دیا ہے کہ جو ہمارے لیڈروں کے خلاف بولے گا یا کالم لکھے گا، وہ صحافی یا تو بکا ہوا ہے، یا سیاسی تعصب کا شکار ہے۔ ایسے لوگ صحافت کے نام پر دھبہ ہیں، اس لئے ہماری سوشل میڈیا ٹیم دن رات کی محنت سے ایسے لوگوں کی اصلیت آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ ان صحافیوں کی بھرپور مذمت بھی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

حکومت چلانے کے آسان طریقے



پاکستان میں آج کل نوجوانوں کو سیاسی میدان میں زیادہ اختیارات اور ذمہ داریاں دینے کا رجحان ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ نوجوانوں کو اپنی پارٹی میں اہم ذمہ داریاں دیں۔ ان میں کچھ واقعی نوجوان ہوتے ہیں اور کچھ کی صرف حکومت کرنے کی خواہش جوان ہوتی ہے۔ بہرحال دونوں قسم کے سیاستدان ہمیشہ جوان ہی رہتے ہیں۔

ان میں سے اول الذکر نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے حکومت چلانے کے کچھ آسان اور آزمودہ طریقے پیش خدمت ہیں۔ یہ طریقے پاکستان میں گزشتہ 66 سالوں سے آزمودہ ہیں اور ان کی اثر پذیری میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ ان طریقوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

1) حکومت سے پہلے کا عرصہ 2) حکومتی دور 3) اپوزیشن کا دور۔  حیران ہونے کی ضرورت نہیں، تینوں ادوار میں سیاستدان حکومت میں ہی ہوتا ہے۔

حکومت سے پہلے کا دور: اس عرصے میں آپ کو اپنی امیج بہتر کرنی ہے۔ عوام میں سیاستدانوں کے بارے میں جو منفی رائے پائی جاتی ہے، اس کا اثر زائل کرنا ہے۔ اس کے لئے آپ لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کریں، پروٹوکول کے بغیر گھومیں پھریں۔ اگر کسی جگہ پر لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے احتجاج کررہے ہوں تو ان سے یکجہتی کے لئے احتجاج میں شریک ہوں، ان کے حقوق کے لئے لڑنے مرنے کا عزم کریں اور دبے لفظوں میں یہ بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ ‘دیکھ لیا فلاں کو ووٹ دینے کا نتیجہ’۔ اس سے رفتہ رفتہ آپ ایک نجات دہندہ رہنما کے طور پر جانے جائیں گے اور اگلے الیکشن میں (اگر ہوئے تو) آپ کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

اگر آپ کسی سیاسی جماعت میں اہم ذمہ داریوں پر فائز ہیں تو پھر مندرجہ بالا عوامی خدمات کے ساتھ ساتھ روزانہ، ہفتہ وار یا پھر کم از کم مہینے میں ایک بار اخباری بیانات اور ٹی وی انٹرویو اور ٹاک شو کے ذریعے حکومت وقت کو آڑے ہاتھوں لیں۔ حکومت کے ہر جائز و ناجائز کام پر تنقید کریں، حکومتی منصوبوں میں کیڑے نکالیں اور مظلوم عوام کے حقوق کے لئے لڑنے مرنے کی قسمیں کھائیں۔

حکومتی دور: جب آپ کی پارٹی کو اقتدار مل جائے تو سب سے پہلے اپنے لئے بہتر سے بہتر وزارت کا قلمدان حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اصول اور ڈسپلن کو ایک طرف رکھیں،  ورنہ بعد میں کسی بے کار وزارت کو لے کر روتے رہیں گے۔ آج کل تو کسی ایسی ویسی وزارت کے لئے ٹی وی والے انٹرویو بھی نہیں لیتے۔ اس لئے اس ہدف کو ضرور حاصل کریں۔ اس کے بعد اپنے لئے کچھ محافظوں کا انتظام کردیں، بس یہی دو تین سو افراد پر مشتمل اور پروٹوکول کے بغیر کہیں سفر نہ کریں۔ عوام میں گھل مل جانے کی پرانی عادتیں چھوڑ دیں ورنہ پھر لوگوں میں آپ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ اس لئے فاصلہ رکھیں۔

۔ اس کے بعد عوام کی خدمت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے بہت بڑے حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کو پچھلے دور کی صعوبتوں سے نکالنے کے لئے مندرجہ ذیل کام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں:

سب سے پہلے پچھلی حکومت کے جاری کردہ منصوبوں کو بیک جنبش قلم روک دیں۔ یہ منصوبے عوام پر ظلم ڈھانے کے لئے شروع کئے گئے تھے۔ اس لئے عوام کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لئے اگر قومی خزانے کا کچھ نقصان ہوتا بھی ہے تو یہ سودا اتنا برا نہیں۔

اس کے بعد اپنی پارٹی منشور کے مطابق عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی اسکیم شروع کریں۔ البتہ یہ اسکیم نہایت قلیل المدتی بنیاد پر ہونے چاہیئے۔ ورنہ لوگوں کا دل  اس دنیا میں ہی لگ جائے گا اور وہ آخرت سے بے فکر ہوجائیں گے۔ اس کی ذمہ داری پھر آپ کی حکومت پر ہوگی۔ کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت اپنی پارٹی کے اراکین کا ‘خاص خیال’ رکھیں۔ انہی لوگوں کی دعاؤں سے آپ اس مقام پر پہنچے ہیں اور اگلی مرتبہ پھر یہی لوگ آپ کے کام آئیں گے۔

اپوزیشن والے آپ کو کام کرنے نہیں دیں گے۔ اس لئے ان کو کیسوں میں الجھائے رکھیں تاکہ عدالتوں اور جیل کے درمیان چکر کاٹتے رہیں۔ اور عوام کو ان سے دور رکھنے کے لئے کبھی کبھار یہ بیان دیتے رہیں کہ عوام اب سمجھدار ہوگئی ہے اور عوام کو بے وقوف بنانا اپوزیشن کے لئے آسان نہیں، تاکہ اپوزیشن کا ساتھ دینے والے خود کو بے وقوف سمجھیں اور پیچھے ہٹ جائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی سرپھرا سیاسی لیڈر حکومت کے کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے تو اس کی کردارکشی کریں، اس کا ماضی لوگوں کے سامنے لائیں کہ کیسے اس نے بچپن میں فلاں تندور سے روٹی چرائی تھی اور فلاں کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ گیا تھا۔

سب سے اہم کام اپنے مستقبل کی فکرکرنا ہے۔ آنے والے وقت کے لئے پہلے سے تیاری کریں۔ ائیرپورٹ پر ایک طیارہ ہمہ وقت تیار رکھیں۔ کبھی بھی حفاظتی تدابیر کے طور پر ملک سے باہر جانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس کے بعد اپنے بچوں کی دال روٹی کے لئے دس بارہ کارخانے، کچھ شاپنگ سنٹرز وغیرہ بنا کر بیوی بچوں کے نام کردیں  تاکہ مشکل وقت میں ان کے کام آئے۔ حکومتی کاموں میں اپنے رشتہ داروں کی مدد حاصل کریں تاکہ وہ بھی عوام کی بھرپور خدمت کرسکیں۔

اپوزیشن کا دور: اپوزیشن والے دور میں زیادہ کام نہیں ہوتا۔ اگر آپ جیل سے باہر رہے تو اخبارات پڑھیں، ٹی وی دیکھیں ، حکومتی منصوبوں اور بیانات کی مخالفت میں بیانات جاری کرتے رہیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔ ورنہ جیل میں وقت گزاری کے لئے کوئی کتاب لکھیں تاکہ عوام میں آپ کا امیج ایک نڈر سیاسی لیڈر کے طور پر ہو۔

امید ہے مندرجہ بالا مشورے اور طریقے آپ کے کام آئیں گے اور آپ ہمیں دعائیں دیں گے البتہ یہ دعائیں آپ عوام سے ملنے والی دعاؤں سے نہ دیں۔ وہ صرف آپ ہی کے لئے ہیں۔

تحریک انصاف کا جلسہ – کچھ تاثرات


2004ء میں جب پہلی بار کراچی گیا تھا، تو وہاں کی دیواروں پر ‘جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے’ لکھا ہوا دیکھ کر کراچی والوں کی قائد اعظم سے محبت پر رشک آیا۔ سوچا، یہ لوگ تو واقعی قائداعظم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ تو بعد میں معلوم پڑا کہ وہ قائد تو آؤٹ ڈیٹڈ ہوگئے ہیں، اب یہ نئے قائد کی باتیں اور ان کا دور ہے۔

ایم کیو ایم کراچی کی ایک بڑی جماعت ہے، اور پاکستان کی سیاست میں اس کا اہم حصہ ہے۔ مثبت یا منفی طرز عمل، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ان کے سیاسی وزن سے انکار ممکن نہیں۔ ہم لوگ ان کی پالیسیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ وہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے لوگوں پر اپنی رائے ٹھونستے ہیں۔ اپنے لیڈر کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں، اور جو غلطی سے بولے، اس کے لئے کراچی کی دیواریں صحیح معنوں میں‌ نوشتہ دیوار ہیں۔

سیاست میں تشدد کا وسیع پیمانے پر استعمال ایم کیو ایم سے شروع ہوا۔ عدم برداشت اور سیاسی قتل ان کے دور میں فروغ پائے۔ اس سے پہلے اگر چہ پاکستان کی سیاست میں یہ حربے استعمال ہوتے تھے لیکن ایک محدود اور مستثنٰی صورتحال میں۔

اگر ایم کیو ایم مندرجہ بالا خصوصیات کی بناء پر ہم لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنتی ہے، تو آخر ایسی کیا وجہ ہوگی کہ یہی طرز عمل اگر دوسری پارٹی اختیار کرے تو لوگ صرف انقلاب کی امید میں اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرلے؟ مانا کہ مینار پاکستان کے سامنے لاکھوں لوگوں کا اجتماع عوامی مقبولیت کی نشانی ہے، لیکن اگر صرف لوگوں کی حمایت اور چند لاکھ کا اجتماع ہی کسی کے صحیح ہونے کی دلیل ہے تو پھر ایم کیو ایم کے جلسوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جماعت اسلامی بارہا مینار پاکستان کے سامنے لاکھوں کا اجتماع کرچکی ہے۔ مانا کہ عمران خان کے بیانات پاکستان کے لوگوں کے دل کی آواز ہیں، تبھی تو لوگوں کی اکثریت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ان کے جلسے میں شریک ہوئی۔ لیکن ایک کامیاب جلسے کی بنیاد پر انقلاب کے خواب صرف ایک دیوانہ ہی دیکھ سکتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جو حربے پرانی سیاسی جماعتیں پہلے استعمال کرتی تھیں، تحریک انصاف انہی حربوں کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف میں بھی موقع پرست سیاستدان ہوا کا رخ دیکھ کر شامل ہورہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافے کی توقع بھی کی جارہی ہے، لیکن اگر انقلاب صرف حکومت کی تبدیلی کا نام ہے تو ایسے انقلاب سے کچھ زیادہ توقعات رکھنا بعد میں مایوسی کا سبب بنتا ہے۔

تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں جو کچھ میڈیا میں سامنے آرہا ہے، اللٰہ جانے کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے، لیکن اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر پاکستان کو ایک نئے ایم کیو ایم کے لئے تیار ہونا چاہیئے، جہاں انقلاب کے مخالفین کو اپنا نوشتہ دیوار پڑھنے کے لئے کراچی جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

سیاسی حکیم، سیاسی معجون


کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے، اکثر حکیم اپنے مصنوعات کی تشہیر کے لئے بروشر چھاپتے ہیں۔ ان بروشرز میں طرح طرح کی دواؤں کے فارمولے مفت بتا کر قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بات معجون کے فائدے سے شروع ہوتی ہے، یہ حافظہ تیز کرتا ہے، بدن میں چستی پیدا کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جب آپ معجون کے فائدے پڑھ چکے ہوں تو پھر اس کے اجزائے ترکیبی کا ذکر ہوتا ہے۔ ایسے عجیب عجیب نام لکھے ہوتے ہیں کہ پڑھ کر واقعی حافظہ تیز کرنے کی مشق ہوجاتی ہے۔ اور اجزاء بھی ایسے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ کہاں سے لاؤں۔ نتیجتاً بندہ مایوس ہوا ہی چاہتا ہے کہ آگے لکھا ہوتا ہے، ”یہ ساری دوائیں ہمارے مطب پر نہایت آسان قیمت پر دستیاب ہیں۔“

مایوسی امید میں بدل جاتی ہے۔ مطب پر جا کر معجون خرید کر حافظے کو تیز کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ جب کچھ فرق نہیں پڑتا تو دوبارہ حکیم صاحب کے پاس جاتے ہیں۔ حکیم صاحب غذاؤں کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہیں کہ اس دوا کے ساتھ یہ چیزیں استعمال نہیں کرنی چاہیئے تھی، آپ نے بد پرہیزی کی، اس لئے اب فلاں فلاں شربت استعمال کریں تا کہ جو ری ایکشن ہوا ہے، اس کی تلافی ہو۔ اس طرح عمل اور رد عمل کے چکر میں بندہ اتنے چکر کھا جاتا ہے کہ رہا سہا حافظہ بھی خراب ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی افق کا حال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ سیاسی حکیم ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے پہلے فارمولے بتاتے ہیں۔ حکیموں کے فارمولوں کی طرح یہ سیاسی فارمولے بھی حافظے کو تیز کرنے کی بہترین مشق ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً اب تک انگریزی کے تقریباً سارے حروف کے دوحرفی و سہ حرفی سیاسی فارمولے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔نیا فارمولا بنانا بھی چنداں مشکل کام نہیں۔ بس انگریزی حروف تہجی کی ترتیب بدلتے رہیئے، فارمولے بنتے رہیں گے۔ یہ سیاسی فارمولے بھی اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ ڈائری کے بغیر سارے فارمولے یاد رکھنا حافظے کا بہترین امتحان ہوتا ہے۔

پھر جب عوام یہ سوچ کر ہمت ہارنے لگ جائے کہ یہ سارے کام تو تقریباً نا ممکن ہیں، خوشخبری ملتی ہے کہ جناب ہمارے منشور کے مطابق ہمارے پاس ملک و قوم کے مسائل کا حل موجود ہے۔ بس تھوڑا سا مینڈیٹ دے دیں، پھر دیکھیں ہماری سیاسی بصیرت کے کرشمے۔

اب سیاسی مطب پر جاکر مینڈیٹ دے کر مسائل کے حل کی امید پیدا ہوتی ہے۔ عوام اپنا مینڈیٹ دے کر یہ امید رکھتے ہیں کہ سیاسی حکیم ملک کی گرتی ہوئی معاشی اور سیاسی صحت کی بہتری کے لئے کوشش کریں گے۔ ماہ و سال گزرنے کے باوجود جب ملک کی معاشی اور سیاسی صحت میں بہتری نہیں آتی تو مایوس ہو کر دوسرے سیاسی مطب پر جاتے ہیں۔ یہ حکیم صاحب پہلے والے فارمولوں کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ان فارمولوں سے تو ملک کی سیاسی اور معاشی صحت پر نہایت برا اثر پڑا ہے۔ اس لئے پرانے والے فارمولے کو ترک کرکے اس نئے فارمولے کے مطابق عمل کیا جائے تا کہ ملک کے حالات بہتر ہوں۔ نئے فارمولے بھی مینڈیٹ دے کر خریدے جاتے ہیں۔

عوام پھر مینڈیٹ کے بدلے ملک کی بہتری کے خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے جو پہلے سیاسی حکیم کی دی ہوئی دوا سے ہوتا ہے۔ اس طرح سیاسی حکیموں کو آزماتے آزماتے ملک کی صحت ابتر ہوجاتی ہے۔

ذرا دیکھئے قوم کو اگلی مینڈیٹ کے بدلے کونسا معجون ملتا ہے!

(میری یہ تحریر 17 اگست 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

ابن الوقت


وہ بہت غصے میں دفتر میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرنے کا انداز ظاہر کررہا تھا جیسے کسی سے لڑ جھگڑ کر آیا ہو۔ آتے ہی کہنے لگا، یہ کیا بدتمیزی ہے؟ تم لوگ کیا نئے نئے اصول بناتے ہو؟ ناک میں دم کرکے رکھا ہے۔ یہ رپورٹ دو، وہ رپورٹ لکھو۔ ہم لوگ اپنا بھی کوئی کام کرسکتے ہیں یا پھر صرف آپ جیسے دفتری لوگوں کی فرمائشیں پوری کریں؟’ وہ بولتا ہی چلا گیا۔

ٹیم لیڈر نے اس کی طرف دیکھا، اور کہا، ‘کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟’

اس نے پھر بھنا کر کہا، ‘ارے ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں۔ تم لوگ ہر روز نئے نئے مطالبے کرتے ہو۔ کام میں روڑے اٹکاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ وہ پھر وہی رونا شروع ہوگیا۔

‘ٹھیک ہے، ہم دیکھتے ہیں، کیا مسئلہ ہے۔ آپ ناراض نہ ہوں۔’ ٹیم لیڈر نے اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔

‘ارے پریشان ہوتی ہے میری جوتی۔ میں کیوں‌ پریشان ہوں بھلا؟ میں تو تم لوگوں کو یہ بتانے آیا ہوں کہ مجھے اپنا کام کرنے دو، یہ فضول کے نئے نئے طریقہ کار میرے لئے درد سر ہیں۔’

دفتر میں بیٹھے باقی سارے لوگ اپنا کام چھوڑ کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کچھ ادھیڑ عمر پرانے کھلاڑی ایک دوسرے کو اشاروں سے آگاہ کررہے تھے، کہ اب ٹیم لیڈر کی خیر نہیں۔ آفس بوائے بھی سارے کام چھوڑ کر کیبن کے باہر کان لگا کر کھڑا تھا۔ ٹیم لیڈر کے ساتھ بیٹھے معاونین بھی اس نئی صورتحال پر پریشان تھے۔ احتجاج کرنے والا ان کا اپنا ساتھی تھا، لیکن دفتر کے دوسرے سیکشن میں کام کرتا تھا۔

ایک معاون نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے ان کو سمجھانے کی کوشش کی، ‘جناب یہ تو نئے سسٹم کا تقاضا ہے۔ اس طرح آپ کمپنی کے اصولوں کے مطابق عمل کرتے ہیں تو سب کا فائدہ ہوتا ہے۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ آپ سب کو کام میں‌ آسانی ہو۔ پھر بھی ہم کوشش کریں گے، آپ کی بات اعلیٰ افسران تک پہنچائیں گے۔’
‘جی بالکل، جناب کی شکایت بجا ہے۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا، کہ اس طرح کام میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔’ دوسرے معاون نے شکایت کنندہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
‘میں بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اس نئے طریقہ کار پر نظرثانی کی جائے۔’ تیسرے معاون نے بھی سر کجھاتے ہوئے کہا۔

ٹیم لیڈر بھی بے بس ہوگیا۔ کہا، ‘ٹھیک ہے، ہم آپ کی بات نوٹ کرکے اپنے سینئر افسران کو پہنچادیں‌گے۔’

یہ سن کر شکایت کنندہ نے سب کی طرف دیکھا اور باہر نکل گیا۔

اس کے جانے کے بعد ٹیم لیڈر نے میز پر پڑے ہوئے ٹرے کو ہاتھ سے دھکا دے کر نیچے پھینک دیا۔ ‘ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو؟ بڑا آیا بڑھکیں مارنے والا!’

‘ارے بہت ہی فضول قسم کا بندہ ہے جناب۔ میرا تو دل کررہا تھا، کہ سیدھا دو تین جڑ دوں اس کے منہ پر۔’ پہلے معاون نے غصے سے کہا۔

‘جناب، میں تو اس سے بولنے ہی والا تھا کہ اپنی بکواس بند کرکے دفع ہوجائے لیکن آپ لوگ اس کو سمجھا رہے تھے تو میں نے بھی اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔’ دوسرے معاون نے میز پر پڑے کاغذات کو درست کرتے ہوئے کہا۔

تیسرا معاون اپنی کرسی سے اٹھ کر فرش پر پڑے ٹرے کو اٹھانے لگا جو ٹیم لیڈر نے غصے میں نیچے پھینک دیا تھا، اور کہنے لگا، ‘ اگر وہ دوبارہ آیا تو میں اس کو ایسا جواب دوں گا کہ یاد رکھے گا۔’

میں اس ساری کارروائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ ساری باتیں سن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھا، ‘ آپ لوگوں نے یہ باتیں اس بندے کے سامنے کیوں‌ نہیں کی؟’

‘ارے تو تم بول دیتے نا۔ منہ میں زبان نہیں تھی کیا؟’ ٹیم لیڈر نے پھنکار کر میری عزت افزائی کی۔

‘یہ کیا بولیں گے جناب، ہم پر طنز کرتا رہتا ہے۔’ پہلے معاون نے حسبِ معمول ہاں میں ہاں ملائی۔

‘بزدل کہیں کا۔’ دوسرے معاون نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا مناسب سمجھا۔

‘ڈرپوک کہیں کا۔’ تیسرے معاون نے بھی مجھے خونخوار نظروں سے دیکھا۔

(میری یہ تحریر 21 جنوری 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی۔)

انقلاب زندہ باد!!!


چوک پر حشر بپا تھی۔ لوگ جلوس کی شکل میں جمع ہورہے تھے۔ نعرے لگ رہے تھے، انقلاب زندہ باد، انقلاب انقلاب۔ کچھ نوجوان دیوانہ وار ان نعروں کی پکار سے لوگوں کے جذبات گرما رہے تھے۔ میں نے دیکھا، حدِ نظر تک لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

جلوس آہستہ آہستہ جلسے کی شکل اختیار کرگیا۔ کچھ افراد کو کندھوں پر بٹھا کر چوک میں قائم اسٹیج تک پہنچایا گیا۔ نعروں کا زور کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اسٹیج پر عوام کا لیڈر ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا، جس سے نوجوانوں‌ کا جوش و خروش اور بھی بڑھ رہا تھا۔

اسٹیج کے ایک کونے میں عوامی دولت لوٹنے والے کھڑے تھے، ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ان کو اپنا انجام صاف نظر آرہا تھا۔ عوامی لیڈر نے اب تقریر شروع کردی تھی۔ لوگ خاموشی سے سن رہے تھے۔ بیچ میں نوجوان نعرے بھی لگاتے۔ عوامی لیڈر نے عوام کی تعریف کی کہ ان کی قربانیوں کی بدولت اتنا بڑا انقلاب آیا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی جب عوامی لیڈر نے کہا، ‘اب اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا، اب غریب کیک کھائے گا، جاگیردار کھیتوں میں کام کریں گے۔ کوئی بھی قوم کی دولت لوٹ نہیں سکے گا۔ کرپٹ اراکین پارلیمنٹ کو سزا کے طور پر اسلام آباد میں سائیکل رکشہ چلانا پڑے گا اور ان رکشوں میں عوام سفر کرکے ان کرپٹ عناصر کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔’

عوامی لیڈر کچھ اور بھی کہہ رہا تھا، لیکن مجھ سے رہا نہ گیا اور جوش میں آکر نعرے لگانے شروع کردئیے، انقلاب زندہ باد!!! عوامی لیڈر زندہ باد!!! انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں جلوس میں سے کسی نے مجھے زور سے جھنجھوڑا، اور کہا، یار سونے بھی دو، خواب میں بھی نعرے لگاتے رہتے ہو۔

پھر میری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

(میری یہ تحریر 15 فروری 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

کُج سانوں مرن دا شوق وی سی


کہتے ہیں کہ جو بندہ دل کے قریب ہوتا ہے، اس کی جدائی پر زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر فاروق خان صاحب کو بمشکل 2 سے 3 مرتبہ کسی تقریب میں دیکھا ہوگا۔ لیکن پھر بھی ان کی شہادت پر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی قریبی عزیز جدا ہوگیا ہو۔ ظالموں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اختلافِ رائے پر کسی کی آواز کو گولی سے خاموش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ گولی اور بندوق کے زور پر فیصلے کرنے والے پچھتائیں گے، کیونکہ یہی گولیاں رخ بدل کر ان کے سینوں کو بھی اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں۔

میں جب کالج میں پڑھ رہا تھا تو اکثر والد صاحب میری سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مجھے سمجھاتے۔ بیٹا، سیاست بہت گندا کھیل ہے۔ اس میں حصہ لینے والے کا دامن صاف نہیں رہتا۔ والد صاحب مجھے سمجھاتے۔

میں کہتا، ضروری نہیں۔ سیاست کو اگر گندے لوگوں‌ کے لئے چھوڑ دیا جائے تو اصلاح کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ باتوں باتوں میں ڈاکٹر فاروق خان کا نام بطور مثال ضرور آتا۔

لیکن آج ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبر سن کر مجھے یقین ہوگیا۔ سیاست واقعی گندے لوگوں‌ کا کام ہے۔ شریف آدمی یا تو مارا جائے گا، یا پھر اپنی شرافت چھوڑ کر دوسروں کے رنگ میں رنگا جائے گا۔ قاتل واقعی کامیاب ہوگئے، ایک پیغام دے کر۔ کہ سیاست عام آدمی کا کھیل نہیں، اس کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں اور وی آئی پی سیکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔

مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے ڈاکٹر محمد فاروق خان کوسب سے پہلے کب دیکھا تھا۔ نوے کی دہائی کی بات ہے، ڈاکٹر فاروق اس وقت جماعت اسلامی میں تھے اور مردان سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑرہے تھے۔ اگرچہ وہ الیکشن ہار گئے تھے، لیکن ان کی جادو بیانی، حاضر جوابی اور مقررانہ صلاحیتیں ہر عام و خاص کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں۔ کردار اور گفتار میں تضاد نہ ہو تو باتوں میں اثر خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے طرز سیاست، بعض مسائل پر ان کے موقف سے اختلاف کے باوجود ان کی قابلیت، سیاسی صلاحیتوں اور انسان دوستی پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا۔

ڈاکٹر صاحب نوجوانوں میں بہت مقبول تھے۔ مجھے یاد ہے میرے دوست ان کی تقاریر سننے کے لئے جاتے تھے۔ مجھے خود 2،3 مرتبہ ان کو سننے کا موقع ملا۔ وہ حقیقت میں ایک مسحور کن مقرر تھے۔ ان کے لہجے کی مٹھاس آج بھی یاد ہے۔ بعد میں اگر چہ وہ جماعت اسلامی سے علیٰحدہ ہوگئے تھے، لیکن جماعت کے حلقوں میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ان کی شہادت پر دل افسردہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کیا لکھوں۔ ان کی آواز کو خاموش کرنے والوں کی غلط فہمی پر حیرت ہورہی ہے۔ وہ لوگ کیا سمجھ رہے ہیں، اس طرح کسی کو قتل کرکے بہادری والا کام کیا ہے؟ میں نے تو سنا تھا، بہادر لوگ نہتوں‌ پر وار نہیں کرتے۔ البتہ بزدلوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اپنے مخالفین کو ختم کرکے غلبہ حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کریں۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف اگر کسی کی رائے سے متصادم تھا، تو اس بنیاد پر ان کا قتل جائز نہیں ہوجاتا۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے، لیکن شائد میں اس وقت بہت ڈپریسڈ ہوں۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر یہ شعر بالکل فٹ آتا ہے:

کُج شہر دے لوک وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی

( یہ تحریر 2 اکتوبر 2010ء کو میرے ورڈ پریس پی کے بلاگ پر شائع ہوئی تھی۔ ورڈپریس پی کے بند ہونے کے بعد یہاں پر شائع کررہا ہوں۔)

جوتا گردی


دن بھر کی تازہ ترین خبروں کے ساتھ گلفام خان حاضر ہے۔ سب سے پہلے ایک نظر آج کی اہم ترین خبر پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج ایک پرہجوم جلسے کے دوران جناب لاچاری پر ایک جوتا کش حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ حملہ آور، جس کی عمر تقریباً 50 سال بتائی جارہی ہے، سندھی ٹوپی پہنے ہوئے تھا، اور اس کی ہلکی سی داڑھی بھی تھی۔ اس حملے کے بعد انسداد جوتا گردی فورس فوراً حرکت میں آئی اور مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لئے ہمیں جوائن کیا ہے، وفاقی وزیر برائے انسداد جوتاگردی جناب پریشان ملک صاحب نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریشان صاحب، کیا کہئے گا اس جوتا کش حملے پر؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘دیکھئے، ہم نے پہلے ہی خبردار کیا تھا، کہ اس طرح کا بزدلانہ حملہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دیکھئے نا، ہماری بات صحیح نکلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوتا گردوں نے اس بار بھی ایک پرامن محفل کو نشانہ بنایا۔۔۔۔ ہم اس معاملے کی مکمل تحقیقات اقوام متحدہ سے کروائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ جوتا گرد سن لیں۔۔۔۔۔۔۔وہ ہمیں ان ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم آخری سانس تک جوتا گردی کے خلاف لڑیں گے، کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم قربانیوں سے نہیں ڈرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے پہلے بھی بہت جوتے کھائے ہیں، ممم مطلب قربانیاں دی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری تاریخ ایسی قربانیوں‌ سے بھری پڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ ہم نے ان جوتا گرد حملوں کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل سے پورے پاکستان میں اس حوالے سے خصوصی سرچ آپریشن کئے جائیں گے۔

‘پریشان ملک صاحب، کچھ تفصیل بتائیں گے، حکومت کیا اقدامات کرنے جارہی ہے اس حوالے سے؟

‘جی، اس حوالے سے انسدادِ جوتا گردی کمیٹی میں تین نکاتی لائحہ عمل پر اتفاق رائے کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے مرحلے میں ملک بھر سے رضاکارانہ طور پر جوتے اکٹھے کئے جائیں‌ گے، جو کہ غیر قانونی طور پر لوگوں کے پاس ہیں۔۔۔۔۔ اس کام کے لئے میڈیا پر عوام سے اپیل کی جائے گی، کہ وہ تحصیل کی سطح پر اس حوالے سے قائم کیمپوں میں اپنے زیرِ استعمال غیر قانونی جوتے جمع کروائیں۔ امید ہے، عوام اس سلسلے میں‌ ہم سے تعاون کرے گی، کیونکہ یہ ایک قومی اہمیت کا حامل ایشو ہے۔ اس مہم کے اختتام پر دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا۔ اس میں چھاپہ مار ٹیمیں غیر قانونی جوتوں کو اپنے قبضے میں لیں گی۔ نیز ماہر جوتا چوروں کی خصوصی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی، جو مسجدوں کے باہر سے بڑے پیمانے پر جوتے اکٹھے کرکے ملک کو ان غیرقانونی جوتوں سے نجات دلائیں گے۔ نیز قانون توڑنے والے کو بطورِ سزا بغیر جوتوں کے گھر جانا پڑے گا۔

‘ لیکن پریشان ملک صاحب، اس طرح تو لوگ جوتوں سے محروم ہوجائیں گے۔ آپ نے متبادل کا انتظام کیا ہے؟ یا پھر عوام بغیر جوتوں کے گھومتے پھریں گے؟ اس طرح تو ہم پتھر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معاف کیجئے گا، جنگلی دور میں‌ واپس چلیں جائیں گے۔

‘میرے بھائی، میڈیا والوں کی یہی خرابی ہوتی ہے۔ بات مکمل کرنے نہیں دیتے۔ میری بات سنیں۔ ہم نے پہلے ہی نادرا کا ایک ذیلی ادارہ تشکیل دیا ہے، جو لوگوں کو قانونی طور پر جوتے فراہم کرے گا۔ اس سلسلے میں چارسدہ اور کوہاٹ کے جوتا بنانے والے کاریگروں کا انتخاب جاری ہے۔۔۔۔۔۔ ہر شخص کو شناختی کارڈ کی بنیاد پر ایک جوڑا جوتے کے لئے لائسنس فراہم کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد جوتا فراہم کیا جائے گا، جس میں‌ بار کوڈنگ کے ذریعے اس بندے کی تمام معلومات فیڈ کی جائیں گی۔۔۔۔۔ نیز اس میں‌ خفیہ سینسر بھی لگائے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی جوتا ہاتھ میں آئے گا، جوتے میں لگا سینسر اس تبدیلی کو نوٹ کرکے جوتے میں لگا ایک خفیہ الارم بجانا شروع کردے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح جوتا کش حملے بڑی حد تک روکے جاسکیں گے۔ اس کے علاوہ ایسی ٹیکنالوجی بھی زیرِ غور ہے، جس میں‌ جوتے سے پاؤں نکالتے ہی جوتے میں لگا الارم بجنا شروع ہوجائے، لیکن ابھی اس میں وقت لگے گا۔

‘پریشان صاحب، وہ تیسرا مرحلہ بھی بتادیں ہمارے ناظرین کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’
‘تیسرے مرحلے میں غیرقانونی جوتے رکھنے والوں‌ کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے ہم سیاسی طور پر مسائل کو حل کرنے کے خواہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جہاں‌ پر‌حکومتی رِٹ کو چیلنج کیا جائے گا، وہاں جوتے کا جواب فوجی بُوٹ سے دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔

‘پریشان ملک صاحب، آپ کا بہت شکریہ، آپ نے ہمیں اس معاملے پر حکومتی موقف سے آگاہ کیا۔’

ناظرین، اب وقت ہوا ہے ایک بریک کا، بریک کے بعد بات کریں گے ہمارے ایڈیٹر انوسٹی گیشن غمگسار عباسی سے، جو اس معاملے کو میڈیا میں کور کررہے ہیں۔

‘ویلکم بیک ناظرین، ہمارے ساتھ ایڈیٹر انوسٹی گیشن غمگسار عباسی صاحب موجود ہیں۔ غمگسار صاحب، کیا کہئے گا، آج کے تازہ ترین جوتا کش حملے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوتا گردی میں کمی نہیں آرہی۔۔۔ کیا وجہ ہے؟

‘ جی، میں تو پہلے سے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ حکومت ہی نکمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پہننے کے جوتے اور ہیں نمائش کے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور۔۔۔ انہوں نے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جوتا گردی کو ختم کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ پورے ملک میں غیر قانونی جوتے سر عام بک رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بنے گا اس ملک کا؟ خدا را ہوش کے ناخن لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کیا مستقبل دے رہیں اپنے بچوں کو؟

‘غمگسار صاحب، آپ کا بہت شکریہ، کہ آپ نے اپنے قیمتی خیالات ہم سے شئیر کئے۔

‘ناظرین، ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ انسداد جوتا گردی فورس نے کراچی میں ایک غیر قانونی جوتوں کی فیکٹری پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں جوتے برآمد کئے ہیں۔ ہمارے نامہ نگار کے مطابق، فیکٹری میں کام کرنے والے افراد کو حراست میں لے کر فیکٹری کو سیل کردیا گیا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لئے ہمارے ساتھ ٹیلی فون لائن پر لندن سے جناب بیتاب حسین صاحب موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیتاب صاحب، کراچی میں یہ کارروائی ہوئی ہے، آپ کا ردِ عمل کیا ہے؟’

‘دیکھئےےےےےے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس خطرے سے حکومت اور عوام کو بہت پہلے آگاہ کیا تھا، کہ کراچی جوتا گردوں کے قبضے میں‌ جارہا ہے، یہاں پر جوتا گردوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے بنالئے ہیں، ان کو زیادہ تر خیبر پختونخواہ سے آنے والے لوگ پناہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہمیں الٹا تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج دیکھ لیں، ہماری بات سچ ثابت ہوئی نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ سوٹ بوٹ والے شریف لوگ جوتا گردوں کے نرغے میں جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں جوتا گردی کے خلاف آپریشن کیا جائے، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔

‘ بیتاب حسین صاحب، آپ کا بہت شکریہ، آپ نے ہمیں‌ اس حوالے سے کراچی کی نمائندہ تنظیم کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔’

ناظرین، اس کے ساتھ ہی ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہوتا ہے۔ اپنا خیال رکھئے گا، اور آس پاس کے ماحول پر نظر رکھئے گا، اپنی حفاظت کیجئے اور جوتا گردی کے خلاف جنگ میں‌ اپنا حصہ ڈالئے۔ اپنے میزبان گلفام خان کو اجازت دیجئے۔

اللٰہ حافظ

نوٹ: اس مراسلے میں‌ بیان کئے گئے تمام کردار فرضی ہیں، کسی قسم کی مشابہت پڑھنے والے کی اپنی ذمہ داری ہوگی۔ لکھنے والا اس سے بری الذمہ ہوگا۔

سراب


اپنے دوست کو صبح سویرے مسجد کے باہر اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر پہلے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ وہ بندہ جو کبھی 9، 10 بجے سے پہلے اٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہ میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں بچپن سے ہی جن بھوت سے ڈرتا تھا۔ پہلے تو خیال آیا کہ شائد کوئی جِن میرے دوست کی شکل بنا کر میرے سامنے کھڑا ہے۔ لیکن جب اس نے پاس آکر بات شروع کی، تو یہ وہم ختم ہوگیا۔

"مبارک ہو، نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔” اس نے خوشی سے کہا۔
مجھے اس کی بات کا بالکل یقین نہیں آیا۔

پھر اس نے تفصیل سے بتایا۔ یہ 13 اکتوبر 1999ء کی صبح تھی۔ پاکستانی عوام نے حلوے کی دیگیں تقسیم کرکے جنرل مشرف کا استقبال کیا۔ ہر طرف نئی حکومت کی آمد کی خوشی میں عوام پاگل ہو رہی تھی۔ اس وقت مجھے یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ ٹھیک دو سال بعد یہی لوگ سڑکوں پر آکر مشرف حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہوں گے۔

مشرف نے آکر بہت سارے اچھے کام بھی کئے۔ انہوں نے فوجی جوانوں کو سویلین اداروں میں بھی "مدد” کے لئے بھیجا۔ بہت سارے ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان اور اجمل خٹک جیسے لوگ بھی دھوکہ کھا گئے۔ بلاشبہ ابتدائی دنوں میں مشرف نے بد عنوان لوگوں کے خلاف جس طرح کریک ڈاؤن شروع کیا، اس سے یہی لگ رہا تھا کہ پاکستانی قوم کو ایک مناسب لیڈر مل گیا ہے، جو برسوں کی تشنگی دور کرنے کے لئے کافی ہے۔

لیکن معلوم نہیں تھا کہ ہم اپنے مسائل کی صحرا میں سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ 9/11 کے واقعے نے تو پاکستان کی پالیسی کو یوٹرن پر مجبور کردیا۔ وہ لمحے ہمارے لئے ایک بہت ہی نازک مرحلہ تھا، اسکول اور کالج بند کر دیئے گئے۔ عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا گیا۔ ” سب سے پہلے پاکستان” کے سبز باغ دکھا کر پاکستانیوں سے ان کے خواب چھین لئے گئے۔

سب سے پہلے پاکستان، یہی نعرہ دے کر کیا کچھ نہیں کیا گیا پاکستان کے ساتھ ۔ کچھ بھی فیصلہ ہو، تاویل یہی دی جاتی ہے کہ جناب، یہ فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں کیا گیا ہے۔ ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر کھویا ہی کھویا ہے، پایا کچھ نہیں۔ ہر حکومت کے آنے کے ساتھ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ شاید اس باراچھا ہو۔ شاید اس مرتبہ ہمارے مسائل حل ہوں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اس سیاسی نظام نے آج تک ہمیں کوئی مخلص لیڈر نہیں دیا۔ سارے کے سارے کرپٹ، موقع پرست اور چڑھتے سورج کے پجاری نکلے ہیں۔

آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ کب تک عوام کی خاموش اکثریت، جن کو مشرف اپنا حمایتی سمجھتا تھا، اس ظلم کو برداشت کرتا رہے گا؟ عوام کا باشعور طبقہ کب سامنے آکر ان لٹیروں سے مقابلہ کرے گا؟ شاید ہم سراب کے پیچھے ہی بھاگتے رہیں گے۔

جمہوریت کا حسن


آج اسکول نہیں جا سکا۔ ہڑتال کی وجہ سے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی۔ اکا دکا گاڑیاں چل رہی تھیں لیکن اکثر سواریوں سے خالی، کیونکہ کوئی بھی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ چھٹی کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہے۔ چھٹی سے لطف اندوز ہونے کے لئے لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں، دریا میں تیراکی کرتے ہیں، لیکن میرا معاملہ تھوڑا الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں نا، مُلّا کی دوڑ مسجد تک، تو میری دوڑ حجرے تک۔ میں فارغ وقت میں حجرے جاکر اخبارپڑھتا ہوں، اور کریم چاچا کے فاضلانہ تبصروں پر سر دھنتا ہوں۔

آج بھی حسب معمول کریم چاچا حجرے کے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھے، حقے سے شغل کررہے تھے۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ اور دوسری چارپائی پر بیٹھ کر چپ چاپ اخبار پڑھنے لگا۔ حسب معمول انہوں نے موقع غنیمت جان کر حالات حاضرہ پر اپنی ماہرانہ رائے دینے کا ارادہ کیا، لیکن میں نے پہل کرتے ہوئے خود ہی ابتداء کی۔

‘کریم چاچا، آج اسکول نہیں جاسکا۔ ہڑتال کی وجہ سے گاڑیاں بہت کم نظر آرہی ہیں۔’ میں ابھی مزید کچھ کہنے کا سوچ رہا تھا، کہ کریم چاچا نے بولنا شروع کیا۔

‘ہاں بھئی مجھے بھی کچھ کام تھا، لیکن کیا کریں ان کم بختوں کا، ہر مسئلے کا حل ہڑتال میں ڈھونڈتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا ٹیکسی میں جاؤں، لیکن کوئی رسک لینے کے موڈ میں نہیں۔ کیونکہ آج کل ہڑتال کی خلاف ورزی کرنے والوں کی گاڑیاں بھی اکثر جلا دی جاتی ہیں۔’

‘ ہاں، مجھے بھی گھر سے منع کردیا گیا، کہ آج اسکول نہ جاؤ۔ امتحانات بھی سر پر ہیں۔ بہت نقصان ہوجاتا ہے، اس طرح کی چھٹیوں سے۔’ میں نے ان کے دل میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کرنے کے لئے کہا، حالانکہ میرا دل کرتا تھا کہ ہر ہفتے کسی نہ کسی بہانے اسکول سے چھٹی ہو۔ پچپن اور لڑکپن تو کھیلنے کودنے کا دور ہوتا ہے۔ بعد میں تو انسان پیسے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے سیدھا قبر میں جا پہنچتا ہے۔

‘ارے بیٹا، تم گھر پر رہ کر بھی ہوم ورک کرسکتے ہو نا۔ خیر، تم خود سمجھدار ہو۔ یقین کرو میرا بس چلے تو ان سیاستدانوں کو اکٹھا کرکے سمندر میں پھینک آؤں۔ جب بھی دیکھو ہنگامہ آرائی اور ہڑتال۔ معیشت کا ستیاناس کردیا ہے ان لوگوں نے۔’ غلطی کسی کی بھی ہو، کریم چاچا اپنا غصہ ہمیشہ سیاستدانوں پر نکالتے تھے۔

‘لیکن چاچا، آج کی ہڑتال تو ٹرانسپورٹروں کی طرف سے ہے، اس میں سیاستدانوں کا کیا کام؟’ مجھے پتا تھا اب کریم چاچا سیاستدانوں کی شان میں اپنے مخصوص اسٹائل میں قصیدے پڑھنا شروع کردیں گے۔

‘ارے تم کیا جانو، یہ سیاست بھی بہت عجیب کھیل ہے۔ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ کس طرح سیاسی رویے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔’ کریم چاچا حقے میں تمباکو بھرتے ہوئے کہنے لگے۔ ان کو حقے سے بہت لگاؤ تھا۔ میں بچپن ہی سے ان کو حقہ پیتے ہوئے دیکھتا چلا آرہا ہوں، اور حقے سے نکلنے والے دھویں کو پکڑنے کی کوشش میں ادھر ادھر چھلانگیں لگاتا تھا۔ ایک بار ان سے پوچھا، آپ ہر وقت حقہ کیوں پیتے ہیں؟ کہنے لگے، یہ فکر اور غموں کو پھونکوں میں‌ اڑانے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس دن کے بعد میں نے حقے سے نکلنے والے دھویں کا تعاقب چھوڑ دیا۔ اپنے غم کچھ کم نہیں تھے کہ ان کے غم بھی اپنے سر لیتے۔

‘میں سمجھا نہیں۔ سیاست دانوں کے رویے معاشرے پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟’ میں واقعی ان کی بات سن کر الجھ گیا تھا۔

‘ارے بہت آسان بات ہے۔ لاؤ، یہ اخبار مجھے دے دو۔’ میں نے اخبار ان کو دے دیا۔ انہوں نے دو تین صفحے الٹ پلٹ کر دیکھے، پھر مجھے کہنے لگے،

‘یہ دیکھو، تازہ خبر ہے۔ اساتذہ کا اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج۔ طلبہ گروہوں میں تصادم، لڑائی کے بعد روڈ بلاک، گاڑیوں پر پتھراؤ۔ ڈاکٹروں کا ہسپتال انتظامیہ کے رویے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ۔ دیرینہ دشمنی کی بناء پر دو گروہوں میں‌تصادم، 4 افراد ہلاک، مرنے والوں کے لواحقین نے میتیں سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کردی۔ اس کے علاوہ یہ خبر دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ اتنی ساری خبریں سن کر میں ان کے ساتھ بحث نہیں کرسکتا تھا، اس لئے مجبوراً ان کو بیچ میں‌روکنا پڑا،

‘کریم چاچا، لیکن یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔’ میں نے کسی جگہ پر پڑھا ہوا ایک جملہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ موقع کی مناسبت سے استعمال کیا۔

‘گرگٹ کے رنگ بدلنے کو اگر حسن کہا جائے تو ایسا کہنے والوں کی عقل پر افسوس کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔’ کریم چاچا شاید میری عقل پر افسوس کررہے تھے، حالانکہ یہ جملہ میرا اپنا نہیں تھا، بلکہ کسی جگہ سے مستعار لیا گیا تھا۔

‘مجھے تو ایک بات سمجھ نہیں آتی، کیا ہر مسئلے کا حل احتجاج میں ہی رکھا ہے؟ میں مانتا ہوں، کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں، جب بحیثیت قوم ہمیں دنیا کے سامنے اپنی آواز اٹھانے کے لئے ریلیوں اور جلوسوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن ہر چھوٹے بڑے معاملے کے لئے ہڑتال اور جلوس نکالنا ملک اور قوم کے نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔’ کریم چاچا آج کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے تھے، میں سوچ رہا تھا، شاید ان کو کچھ زیادہ ہی اہم کام تھا، جو ہڑتال کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا۔ اس کا غصہ اب وہ نکال رہے تھے۔

‘ ویسے چاچا، یہ ہڑتال کے دوران ٹائر جلانے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟’ میں نے اپنی الجھن ان کے سامنے رکھی۔

‘ارے تمہیں یہ بھی نہیں‌معلوم؟ ارے شہر میں اپنے رشید کی دکان ہے اسکریپ کی۔ اس کے پاس پرانے ٹائر اچھی خاصی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس کا کاروبار آج کل بہت اچھا چل رہا ہے۔ کہیں پر بھی ہڑتال اور مظاہرے ہوں، اس کی دکان سے پرانے ٹائر لے کر جلائے جاتے ہیں۔’ کریم چاچا شاید مذاق کے موڈ میں تھے۔

‘اچھا، یہ تو مجھے معلوم نہیں تھا۔ لیکن ان ہڑتالوں اور مظاہروں سے کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے؟’

‘ہاں، فائدے بھی ہیں، لیکن اس کے لئے معاشرہ پوری طور پر جمہوری ہونا چاہیئے۔ ہم نے جمہوری معاشروں سے صرف منفی پوائنٹس لئے ہیں۔ ان کی اچھی باتیں قبول نہیں کی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بہت ساری اچھی باتیں انہوں نے ہمارے دین سے ہی لی ہیں۔ ہم صرف ان لوگوں کی خراب عادات کو اپنا لیتے ہیں۔ مظاہرے وہ بھی کرتے ہیں، لیکن ہماری طرح نہیں، کہ اپنے ہی لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر اپنے غصے کا اظہار کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ کریم چاچا مجھے پوری طرح تفصیل سے سمجھانے لگ گئے تھے۔

میں بھی کریم چاچا کے ساتھ بحث میں پڑ کر اخبار پڑھنا بھول گیا تھا۔ دوبارہ ان سے اخبار لے کر پڑھنا شروع کیا، لیکن وہ اپنا تبصرہ شاید پورا کرنے کے موڈ میں تھے۔ ان کی باتیں ایک بار شروع ہوجائیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں‌ لیتی۔ شاید ان کی اس عادت کی وجہ سے لوگ ان کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں۔

‘ویسے میرا بس چلے تو ان مظاہرے کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دلواؤں۔ میرا شہر جانا بہت ضروری تھا، کم بختوں‌کو آج کے روز ہی ہڑتال یاد آئی۔’ کریم چاچا کو آج شہر جانے کی پڑی تھی، ہڑتال نے ان کا شہر جانا مشکل کردیا تھا۔ اب اسکا غصہ وہ ان لوگوں کو کوس کر اتار رہے تھے۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا، اور اخبار رکھ کر چپکے سے حجرے سے نکل آیا۔