Category Archives: پاکستان میں دہشت گردی

2060: ملالہ کا پاکستان


معاشرتی علوم کی کلاس کا ایک منظر

پیارے بچوں، آج کی سبق کا عنوان ہے، "ملالہ کی جدوجہد”۔  معاشرتی علوم کے استاد نے چھٹی جماعت کے طلبہ کو کلاس کے آغاز میں بتایا۔

"اچھا تو آپ ملالہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟” استاد نے طلبہ سے مخاطب ہو کر سوال پوچھا۔

"سر، ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لئے جدوجہد کی۔ اس وقت ملالہ کو طالبان نے اسکول جانے کی وجہ سے گولی ماری، لیکن ملالہ بچ گئی اور پھر اس نے دن رات ایک کرکے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مہم شروع کی۔” افضال نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتاتے ہوئے داد طلب نظروں سے استاد کی طرف دیکھا۔ استاد نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور شاباشی دی۔

"اس کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم ہے ہماری اس لیڈر کے بارے میں؟” استاد نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

"سر، ملالہ پاکستان کی وزیر اعظم رہی ہیں۔” اسد نے کھڑے ہوکر استاد کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"ٹھیک ہے، آپ لوگ ملالہ کے نام سے واقف ہیں۔ اب اس کی خدمات اور کارناموں کے بارے میں تفصیل سے پڑھتے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی پاکستان کی ایک معروف اور مشہور انسانی حقوق کی کارکن تھیں۔ ان کو زمانۂ طالبعملی میں ہی لڑکیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی بناء پر طالبان نے گولی مار دی۔ لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں اور اس کے بعد انہوں نے اور بھی تندہی سے لڑکیوں کے حق کے لئے آواز بلند کی۔

اس وقت پاکستان پر انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جہادی ذہن رکھنے والے قدامت پسندوں کی سوچ رکھنے والے لوگوں کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ اگرچہ حکومت میں نہیں تھے، لیکن معاشرے میں ان کی سوچ کافی حد تک سرایت کرچکی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کو پتھر کے دور کے قوانین اور رسوم و رواج کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں تھے۔

ان حالات کی وجہ سے ملالہ کو پاکستان میں لڑکیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بھلا ہو ہمارے مغربی دوست ممالک کا، جنہوں نے میڈیا کے ذریعے ملالہ کی مہم کو پذیرائی بخشی اور کئی سال تک ملالہ یورپ میں مقیم رہنے کے بعد واپس پاکستان آئیں۔

پاکستان آکر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے کے بعد ملک کی دوسری خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔”

"سر، اس سے پہلے لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی تھیں؟” آصف نے استاد سے سوال کیا۔

” ملالہ کی حکومت سے پہلے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور کچھ جگہوں پر جب لڑکیوں کے اسکول بنے تو وہاں پر طالبان نے پابندی لگائی تھی۔ اسی لیے تو ملالہ کو گولی ماری گئی۔ لیکن ملالہ کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر لڑکی تعلیم حاصل کرے تاکہ ملک ترقی کرے۔

اس کے علاوہ دقیانوسی خیالات رکھنے والے لوگوں کی بنائی ہوئی قوانین کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے 2050ء میں دو تہائی اکثریت سے ختم کردیا۔ 1500 سال پہلے کے معاشرے کی قوانین کو اس جدید دور میں لاگو کرنے کے حامی اس اقدام پر بہت سیخ پا ہوگئے اور ملالہ کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کردئیے، لیکن حکومت نے ایسے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا ارادہ کیا تھا اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیا۔

ان قوانین کی جگہ ترقی یافتہ دور سے مطابقت رکھنے والے قوانین پاس کئے گئے۔ سب سے پہلے پردے پر پابندی لگادی گئی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے لڑکیوں کو پسماندہ رکھا جارہا تھا۔ اس کے بعد نصاب سے جہاد سے متعلق تمام آیات نکال دی گئی۔ انتہا پسندوں نے اپنے نظریات نصاب میں شامل کرکے پوری قوم کو دہشت گرد بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی، جس کو ملالہ نے ناکام بنادیا۔

اس کے بعد تمام سرکاری اداروں کے ملازمین پر داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ کیونکہ اس سے پاکستان کا امیج ایک قدامت پسند ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ اس لئے ملک کے وسیع تر مفاد میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگادی گئی۔

اس کے بعد بھی ملالہ اور تعلیم کے دشمن اپنے پروپیگنڈے سے باز نہیں آئے اور انہوں نے سرے سے اس بات کا انکار ہی کردیا کہ ملالہ پر کبھی حملہ ہوا تھا۔ یہ سازشی نظریات والے لوگ تھے، جن کا مقصد لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔ اس لئے پاکستانی پارلیمنٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں ایک قانون پاس کیا جس کی رو سے جو شخص ملالہ پر حملے کے واقعے سے انکار کرے گا، اس کو پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

اس کے علاوہ بھی ملالہ نے پاکستان میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت منصوبے شروع کئے۔ انہی خدمات کی بناء پر پاکستانی پارلیمنٹ اب ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک قرارداد پر غور کررہی ہے۔ اس قرارداد کی چیدہ چیدہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ پاکستان کا نام تبدیل کرکے ملالستان رکھا جائے، کیونکہ پاکستان کے نام سے انتہا پسندی کی بو آتی ہے۔

2۔ ملالہ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستانی کرنسی سے قائد اعظم کی تصویر ہٹا کر ملالہ کی تصویر شامل کی جائے۔

3۔ تمام سرکاری اداروں میں ملالہ کی تصاویر آویزاں کی جائیں۔

4. دینی مدرسوں اورعربی زبان کی تعلیم پر پابندی لگادی جائے کیونکہ جن لوگوں نے ملالہ کو گولی ماری تھی، وہ مدرسے میں پڑھتے رہے تھے۔

5۔ اسلامی نام رکھنے پر پابندی لگادی جائے۔ اب سارے نام پشتو، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ہونے چاہیئے۔

6۔ اردو میں عربی زبان کافی حد تک سرایت کرچکی ہے۔ اس لئے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو عربی الفاظ کا متبادل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ عربی رسم الخط کا متبادل بھی بناکر پیش کرے۔

امید ہے کہ ملالہ کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اسمبلی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرے گی۔”

"تو پیارے بچوں، یہ تھا آج کا معاشرتی علوم کا سبق۔ کل اس سبق سے متعلق ٹیسٹ لیا جائے گا۔ سارے بچے ہوم ورک کر کے آئیں۔” استاد نے کلاس کے اختتام پر طلبہ کو بتایا۔

کُج سانوں مرن دا شوق وی سی


کہتے ہیں کہ جو بندہ دل کے قریب ہوتا ہے، اس کی جدائی پر زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر فاروق خان صاحب کو بمشکل 2 سے 3 مرتبہ کسی تقریب میں دیکھا ہوگا۔ لیکن پھر بھی ان کی شہادت پر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی قریبی عزیز جدا ہوگیا ہو۔ ظالموں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اختلافِ رائے پر کسی کی آواز کو گولی سے خاموش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ گولی اور بندوق کے زور پر فیصلے کرنے والے پچھتائیں گے، کیونکہ یہی گولیاں رخ بدل کر ان کے سینوں کو بھی اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں۔

میں جب کالج میں پڑھ رہا تھا تو اکثر والد صاحب میری سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے مجھے سمجھاتے۔ بیٹا، سیاست بہت گندا کھیل ہے۔ اس میں حصہ لینے والے کا دامن صاف نہیں رہتا۔ والد صاحب مجھے سمجھاتے۔

میں کہتا، ضروری نہیں۔ سیاست کو اگر گندے لوگوں‌ کے لئے چھوڑ دیا جائے تو اصلاح کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ باتوں باتوں میں ڈاکٹر فاروق خان کا نام بطور مثال ضرور آتا۔

لیکن آج ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبر سن کر مجھے یقین ہوگیا۔ سیاست واقعی گندے لوگوں‌ کا کام ہے۔ شریف آدمی یا تو مارا جائے گا، یا پھر اپنی شرافت چھوڑ کر دوسروں کے رنگ میں رنگا جائے گا۔ قاتل واقعی کامیاب ہوگئے، ایک پیغام دے کر۔ کہ سیاست عام آدمی کا کھیل نہیں، اس کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں اور وی آئی پی سیکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔

مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے ڈاکٹر محمد فاروق خان کوسب سے پہلے کب دیکھا تھا۔ نوے کی دہائی کی بات ہے، ڈاکٹر فاروق اس وقت جماعت اسلامی میں تھے اور مردان سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑرہے تھے۔ اگرچہ وہ الیکشن ہار گئے تھے، لیکن ان کی جادو بیانی، حاضر جوابی اور مقررانہ صلاحیتیں ہر عام و خاص کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں۔ کردار اور گفتار میں تضاد نہ ہو تو باتوں میں اثر خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے طرز سیاست، بعض مسائل پر ان کے موقف سے اختلاف کے باوجود ان کی قابلیت، سیاسی صلاحیتوں اور انسان دوستی پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا۔

ڈاکٹر صاحب نوجوانوں میں بہت مقبول تھے۔ مجھے یاد ہے میرے دوست ان کی تقاریر سننے کے لئے جاتے تھے۔ مجھے خود 2،3 مرتبہ ان کو سننے کا موقع ملا۔ وہ حقیقت میں ایک مسحور کن مقرر تھے۔ ان کے لہجے کی مٹھاس آج بھی یاد ہے۔ بعد میں اگر چہ وہ جماعت اسلامی سے علیٰحدہ ہوگئے تھے، لیکن جماعت کے حلقوں میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ان کی شہادت پر دل افسردہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کیا لکھوں۔ ان کی آواز کو خاموش کرنے والوں کی غلط فہمی پر حیرت ہورہی ہے۔ وہ لوگ کیا سمجھ رہے ہیں، اس طرح کسی کو قتل کرکے بہادری والا کام کیا ہے؟ میں نے تو سنا تھا، بہادر لوگ نہتوں‌ پر وار نہیں کرتے۔ البتہ بزدلوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اپنے مخالفین کو ختم کرکے غلبہ حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کریں۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف اگر کسی کی رائے سے متصادم تھا، تو اس بنیاد پر ان کا قتل جائز نہیں ہوجاتا۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے، لیکن شائد میں اس وقت بہت ڈپریسڈ ہوں۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر یہ شعر بالکل فٹ آتا ہے:

کُج شہر دے لوک وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی

( یہ تحریر 2 اکتوبر 2010ء کو میرے ورڈ پریس پی کے بلاگ پر شائع ہوئی تھی۔ ورڈپریس پی کے بند ہونے کے بعد یہاں پر شائع کررہا ہوں۔)

میں شرمندہ ہوں!


ہر بار جب پاکستان میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا، تو اس سے اگلے دن دفتر جانا مشکل ہوتا۔ اکثر سوچتا کیا عذر پیش کروں ان واقعات کا؟ جب دفتر میں اپنے جاننے والوں‌ سے سامنا ہوتا تو وہی بات چھڑ جاتی، یار ہارون، کیسے لوگ ہیں یہ؟ مسجدوں میں گھس کر نمازیوں کو مارتے ہیں؟ یہ کیسا اسلام ہے؟ میں کبھی اس کو غیر ملکی ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیتا، کبھی اس کو چند گمراہ لوگوں کی کارروائی قرار دیتا۔ غرض کسی نہ کسی طرح اپنی جان چھڑا کر نکل جاتا۔ مجھے معلوم ہوتا تھا، میری باتوں سے ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی، لیکن میں ڈھیٹ بن کر ان کے ملکوں میں ہونے والے واقعات کا حوالہ دے کر کہتا، یار یہ تو تمہارے ممالک میں بھی ہوتا ہے! اس طرح کے اکا دکا واقعات سے پورے معاشرے کو تھوڑی قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے! آپ بھی کمال کرتے ہیں، پاکستانی ایسے بالکل نہیں۔ اچھے برے تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔

اس بار تو حد ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا، کیسے سامنا کروں اپنے غیرملکی دوستوں کا۔ کیا عذر پیش کروں اپنے ملک کے حالات کا۔ کیا مثال دوں ان کے ملکوں کا، کہ یہ تو آپ لوگوں کے ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ اس میں بڑی بات کیا ہے؟ چند جرائم پیشہ افراد کی کارروائی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

سوچ رہا تھا، کوئی پوچھے گا تو کہہ دوں گا، میں نے خبر نہیں پڑھی۔ آج کل بہت مصروف ہوں، نیوز دیکھی ہی نہیں۔ لیکن یہ عذر کچھ وزن نہیں رکھتا، آج کل میڈیا کا دور ہے۔ اور اس واقعے کی ویڈیو بھی تو سامنے آگئی ہے۔ تو کیا کروں؟ ٹھیک ہے، کوئی پوچھے گا تو کہہ دوں گا یہ تو چند جرائم پیشہ افراد کی کارروائی تھی، حکومت اس کی تحقیقات کررہی ہے۔ جلد ہی مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ لیکن یہ بات بھی کچھ عجیب سی لگ رہی تھی۔ ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک سانحہ ہوا ہے، اور مجرموں کو سزا دینے کے لئے تحقیقات ہورہی ہیں؟ ہاں، یہ بات بھی تو ہے۔ پھر خیال آیا، کہہ دوں گا، مہذب معاشروں میں مجرموں کو عدالتیں سزائیں دیتی ہیں، اس لئے وقت تو لگتا ہی ہے نا! لیکن جن ” مجرموں“ کو عوام کی عدالت میں مارا گیا، ان کو سزا پاکستان کی عدالت نے کیوں نہیں دی؟ ارے میں کیا عذر پیش کروں؟ سوچ سوچ کر پریشان ہوگیا۔

بس میں بیٹھ کر عجیب لگ رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا، جیسے سارے لوگ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھو، ایک پاکستانی بیٹھا ہوا ہے۔ یہ وہی ہے نا، جس کے ملک میں ”ڈاکوؤں“ کو عوام خود سزا دیتی ہے؟ ہاں، وہی ہے۔

آفس پہنچا تو کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ ابھی میرا کوئی کولیگ آئے گا، اور ہمیشہ کی طرح کہے گا، ہارون! یہ کیا ہورہا ہے پاکستان میں؟ میں کہوں گا، یار تم لوگ بھی تعصب کی انتہا کرتے ہو۔ سارے پاکستانی ایسے تھوڑی ہیں؟ چند افراد کی غلطیوں سے پورے ملک کو بدنام کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

لیکن کسی نے بھی نہیں پوچھا، کہ سیالکوٹ میں کیا واقعہ پیش آیا؟ کسی نے آکر مجھ سے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات شئیر نہیں کئے۔ کسی انڈین نے مجھے فخر سے یہ نہیں کہا کہ دیکھو، بھارت میں تو ایسا نہیں ہوتا! کسی نے نہیں پوچھا۔ شائد ان کو یقین ہوگیا تھا، شائد ان کو پتا چل گیا تھا، کہ ہم انسانیت کے درجے سے نیچے گر چکے ہیں۔ جو انسانیت پر یقین ہی نہیں رکھتے، ان سے بحث کیسی؟ شائد اس لئے وہ لوگ مجھے اگنور کر رہے تھے۔ میں پسینے میں شرابور ہوکر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، جیسے سب لوگ کہہ رہے ہوں، وہ دیکھو، یہی ہے وہ پاکستانی، جس کے ملک میں‌ ”انصاف“ سستا ملتا ہے۔ جہاں پر لوگ ”ڈاکوؤں“ کو پولیس کی موجودگی میں عوام سزا دیتی ہے!

اپنی زندگی میں شائد پہلی بار مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر افسوس ہوا!

داتا دربار پر حملہ


داتا دربار لاہور کی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں‌ پر دن رات زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ نذر و نیاز کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر طبقے کے لوگ وہاں آتے ہیں۔ داتا دربار بریلوی مکتبہ فکر کے لئے ایک اہم مقام کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے بعض مبصرین داتا دربار پر حملے کو فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کا ایک حربہ سمجھتے ہیں۔

کل رات کو داتا دربار پر خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خبر سن کر پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی۔ شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے وطن پاکستان کی سلامتی کی دعا بھی لبوں پر تھی۔ مختلف مکاتب فکر کا اختلاف اپنی جگہ، لیکن سید علی ہجویری رحمۃ اللٰہ علیہ سارے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ اس خطے میں اسلام کی اشاعت میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ان کے مزار کو اس طرح نشانہ بنانا ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں خودکش حملے ایک معمول بن چکے ہیں۔ ہر حملے کے بعد رٹا ہوا ایک بیان میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، کہ حملہ آوروں کے سر مل گئے ہیں۔ تفتیش شروع کی گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں یہ تفتیش بھی فائلوں کا پیٹ بھرنے کے کام آتی ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے لاہور کو جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کے پیچھے بہت سارے عوامل اور بڑی طاقتوں کا مفاد ہے۔

کچھ عرصے سے میڈیا پر تواتر کے ساتھ یہ خبریں پھیلائی جارہی ہیں، کہ جنوبی پنجاب طالبان کا مرکز بن چکا ہے۔ آپریشن کے خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اگر چہ یہ خبریں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کی سیاسی چپقلش میں دب کر رہ جاتی ہیں، لیکن وقفے وقفے سے خودکش حملے اس ایشو کو دوبارہ میڈیا میں زندہ کردیتے ہیں۔

موجودہ حملے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے۔ شاید پنجاب کی حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں آپریشن شروع کرے۔ اس کے بہت دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ پہلے ہی آپریشنز کے ردعمل کی آگ میں جل رہا ہے، اب پنجاب کو بھی اس آگ میں دھکیلنے کی تیاریاں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں آپریشن سے ملک کو کچھ فائدہ ہو نہ ہو، پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لئے ایک اور ثبوت ضرور ہوگا۔ بدامنی پہلے ہی سارے ملک کی معیشت کو تباہ کررہی ہے۔ اب نئے آپریشن کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا پاکستان کی کمر توڑ دینے کے مترادف ہوگا۔

حملہ آور چاہے طالبان ہوں یا بلیک واٹر کے لوگ (ایک عام تاثر ہے)، حملے کے لئے جس مقام کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ بہت ساری باتیں صاف کردیتا ہے۔ بریلوی مکتبہ فکر کو طالبان کا مخالف سمجھا جاتا ہے، کیونکہ طالبان کی اکثریت کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے۔ اس لئے داتا دربار پر حملہ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دیوبندی طالبان داتا دربار پر ہونے والے محافل کو روکنے کے لئے حملہ کررہے ہیں۔ اس طرح ملک کے دو بڑے مکاتب فکر کے لوگوں کو آپس میں لڑوانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اب یہ ان دونوں مکاتبِ فکر کے اکابرین پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو اپنی پرانی رنجشوں اور اختلافات کی بھڑکتی ہوئی آگ میں تیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یا پھر اس موقع کو آپس میں اتحاد اور یگانگت کے لئے استعمال کرتےہیں۔ یہ ان دونوں مکاتب فکر کے رہنماؤں کی بصیرت کا امتحان ہے۔

طالبان اور جمہوریت


حامد میر

صاحبان اختیار دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح کے بار بار دعوے کررہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سوات کو عسکریت پسندوں سے پاک کردیا گیا، جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی، باجوڑ میں 63سال کے بعد پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے ایک سے زائد مرتبہ کالعدم تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے کی دیکھا دیکھی باجوڑ میں طالبان رہنما مولوی فقیر محمد اور قاری ضیاء کو مار دینے کا اعلان بھی کردیا گیا۔ جس کسی نے ان دعووں کی تصدیق کیلئے ثبوت کا تقاضا کیا اسے بڑی رعونت اور نفرت کے ساتھ ملک دشمنوں کا ساتھی قرار دیا گیا۔

اس دوران کراچی سے افغان طالبان کے اہم رہنماؤں کی گرفتاری کی خبریں بھی آئیں اور افواج پاکستان کے بعض سینئر افسران کی مدت ملازمت میں توسیع بھی ہوگئی لیکن پھر اچانک خودکش حملوں کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور اور پھر آر اے بازار لاہور میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا تاہم ان حملوں میں زیادہ نقصان بے گناہ عورتوں اور بچوں کا ہوا۔ ان حملوں کے ساتھ ہی حکیم اللہ محسود اور مولوی فقیر محمد نے میڈیا کے ساتھ رابطے شروع کردیئے اور اپنے زندہ ہونے کی خبریں دیں۔ حد تو یہ تھی کہ 12 مارچ کو جمعہ کی نماز سے پہلے اسلام آباد میں کچھ صحافیوں کو شمالی وزیرستان سے فون پر بتایا گیا کہ طالبان کی طرف سے نماز جمعہ کے بعد عوام کیلئے ایک ہدایت نامہ جاری کیا جائے گا تاکہ حملوں میں ان کا کم سے کم نقصان ہو۔ اس دوران لاہور میں دو خوفناک خودکش حملے ہوئے اور ان حملوں کے تھوڑی دیر بعد طالبان نے فیکس کے ذریعہ تین صفحات پر مشتمل ہدایت نامہ جاری کردیا جس میں عوام سے کہا گیا کہ وہ فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے دور رہیں، سیاستدانوں اور اعلیٰ حکومتی شخصیات سے بھی دور رہیں، جلسے جلوسوں میں شرکت نہ کریں، فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے میل جول اور لین دین نہ رکھیں، ایسے ہوٹلوں میں نہ جائیں جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لوگوں کا آنا جانا ہو اور اس کے علاوہ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر سے بھی دور رہیں۔ اس ہدایت نامے کا فیکس کے ذریعہ میڈیا تک پہنچنا اس امر کا ثبوت تھاکہ طالبان کا نیٹ ورک بدستور قائم ہے اور ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ شدت اور سختی پیدا ہوچکی ہے۔
طالبان نے اپنے ہدایت نامے میں حکومت اور فوج پر حملوں کی وجہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور ڈرون حملوں کو قرار دیا۔ ہدایت نامے میں کہاگیا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تھی لیکن پاکستان کی حکومت اور فوج اسلامی نظام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس ہدایت نامے میں حکومت اور فوج کے ساتھ جنگ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جہاد کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا جو بہت قابل غور ہے۔ ہدایت نامے کے اجراء سے پتہ چلتا ہے کہ خود طالبان کی قیادت کو بھی احساس ہے کہ خودکش حملوں میں زیادہ نقصان بے گناہ عورتوں اور بچوں کا ہورہاہے اور لفظ جنگ کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خودکش حملوں کو جہاد کہنے سے بھی احتراز کیا جارہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور ڈرون حملوں کا جواز پیش کرکے ایک انتقامی جنگ کا اعلان کیا گیا۔ اسی ہدایت نامے میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہیں اپنی ماؤں بہنوں کو فروخت کرنے والوں کا ساتھ دینا ہے یا ان کی حفاظت کرنے والوں کا ساتھ دینا ہے۔

اس ہدایت نامے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ طالبان خود کو پاکستانی ماؤں اور بہنوں کا محافظ سمجھتے ہیں۔ اگر وہ واقعی خود کو محافظ سمجھتے ہیں تو پھر قوم کی مائیں اور بہنیں ان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہیں کہ ماڈل ٹاؤن لاہور اور آر اے بازار لاہور میں آپ کے حملوں کے باعث جو مائیں اور بہنیں ماری گئیں ان کا قاتل کون ہے؟ یہ عورتیں بھی اسی طرح بے گناہ اور مظلوم ہیں جس طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں کے باعث اکثر اوقات بے گناہ عورتیں ماری جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی ڈرون میں بھی زیادہ تر بے گناہ مارے جارہے ہیں اور طالبان کے حملوں میں بھی بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بن کر پاکستان کو تباہی کے راستے پر ڈالا، اپنے ہم وطنوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے ہاتھ بیچ دیا اور امریکہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستان پر ڈرون حملے شروع کروادیئے لیکن مشرف کے جرائم کی سزا پاکستان کے مظلوم عوام کو نہیں ملنی چاہئے۔ ان مظلوم اور نہتے عوام نے 18فروری 2008ء کو خوف اور دہشت کی فضا میں گھروں سے نکل کر ووٹ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور مشرف نواز قوتوں کو مسترد کردیا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بہت کمزور ہے، سیاست دان کرپٹ ہیں لیکن مشرف کو پاکستان سے طالبان نے نہیں بلکہ اسی کمزور اور کرپٹ جمہوریت نے بھگایا۔ یقینا پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تھی لیکن پاکستان بنانے والے بادشاہت کے نہیں جمہوریت کے قائل تھے۔ افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز پر امریکہ کے گماشتے فوجی حکمرانوں کا قبضہ ہوگیا اور انہوں نے پاکستان کو شکست و ریخت کے سوا کچھ نہ دیا لیکن یہ تو مانیئے کہ اسلام کی خدمت اگر ہوئی تو جمہوری ادوار میں ہوئی۔ جمہوریت نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا، جمہوریت نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا، جمہوریت نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور یہی جمہوریت پاکستان کو ایک مثالی فلاحی مملکت بھی بنا سکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج کی جمہوریت ڈرون حملے روکنے میں ناکام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اقتدار طالبان کو مل جائے تو کیا وہ ڈرون حملے بند کروا سکتے ہیں؟ ڈرون حملے بند ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ قومی یکجہتی اسی وقت ممکن ہے جب پوری قوم انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان کے خودکش حملوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ڈرون حملوں کے خلاف بھی متحد ہوجائے۔ ہم سب کو مل جل کر جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے پارلیمینٹ کی بالادستی ضروری ہے۔

پارلیمینٹ طاقتور ہوگی تو کسی حکومت اور فوج کو من مانی کا موقع نہیں ملے گا۔ پارلیمنٹ ڈرون حملے نہ روکنے کی صورت میں کراچی سے طور خم تک امریکہ اور نیٹو افواج کی سپلائی لائن روکنے کا حکم دے گی تو کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس حکم کو نظرانداز کرے اور اسی طریقے سے ڈرون حملے بند ہوں گے۔ پاکستان سیاسی و جمہوری جدوجہد کی پیداوار ہے اور پاکستان کی بقا جمہوریت سے وابستہ ہے۔ طالبان کو چاہئے کہ وہ بندوق کے بجائے جمہوریت کا راستہ اختیار کریں اور جمہوریت کے ذریعہ پاکستان کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ترکی کے اسلام پسند جمہوریت کے ذریعہ سیکولر قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں تو یہ پاکستان میں ممکن کیوں نہیں؟ آزمائش شرط ہے لیکن ذرا صبر کے ساتھ۔

مینگورہ خودکش حملہ، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 13ہوگئی


سوات …ضلع سوات کے شہر مینگورہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے باہر خود کش حملہ میں پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت13فراد جاں بحق اور متعددزخمی ہوگئے۔ضلع سوات کے شہر مینگورہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے باہر ہونیوالے دھماکے کے بارے میں ڈی پی او سوات کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور رکشے میں سوار تھا،جس نے پیدل فوج اور پولیس کی چیک پوسٹ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے اس پر فائرنگ کر دی۔ انہوں نے کہا کہ سخت سکیورٹی کی وجہ سے حملہ آور ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکا۔ ذرائع کے مطابق خود کش حملہ آور کی ٹانگیں مل گئی ہیں۔ حملہ میں14کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ میں تین پولیس اہلکاروں،ایک سکیورٹی اہلکار سمیت13افراد جاں بحق ہوگئے۔دھماکے سے قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا،دھماکے کے بعد متعدد گاڑیوں میں آگ لگ گئی اور5گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ زخمیوں اور لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال سیدو شریف پہنچادیا گیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد علاقے کے تمام بازار اور دکانیں بند کر دی گئیں۔ دوسری جانب ایم ایس سیدو شریف اسپتال ڈاکٹر لال نور کا کہنا کہ پولیس اہلکار اور سویلین کی لاشیں لائی گئی ہیں،دھماکے میں شدید زخمی ہونیوالوں کو پشاورمنتقل کردیاگیا ہے۔ پچھلے ماہ22فروری کو مینگورہ شہر کے وسط میں فوجی قافلے پر خود کشحملہ کیا گیا تھا جس میں بھی 13 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

روزنامہ جنگ

لاہور و کراچی میں دہشتگردی،جماعت اسلامی کا سوگ اور احتجاج کا اعلان


لاہور…جماعت اسلامی نے لاہوراور کراچی میں ہونیوالے افسوسناک واقعات پر یوم سوگ اور احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔جماعت اسلامی کے امیر منورحسن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں ہونیوالے دھماکوں اور کراچی میں علمائے کرام کے بہیمانہ قتل پر پوری قوم سوگوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی سے پاکستانی قوم کے عزم کو توڑنے کی سازش ہے لیکن عوام اپنے اتحاد سے دشمن کے عزائم کو ناکام بنادیں گے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو آج ملک بھر میں ان واقعات کیخلاف احتجاجی مظاہرے کرنے کی ہدایت کی۔