Category Archives: طنز و مزاح

سازش – دورِ جدید کا شیطان



سازش سوشل سائنسز کی ایک نئی شاخ ہے۔ ہم اب تک اپنے آباء واجداد کے سائنسی میدان میں کارناموں اور ان کی خدمات کا ذکر کرکے مغرب کو ڈراتے تھے، لیکن کچھ عرصے سے مغرب کا ڈر کم ہوتا جارہا تھا۔ آخر کب تک کوئی ان کارناموں کے کھنڈرات پرسپنوں کے محل کھڑے کرتا۔ اس لئے ہمارے سیاسی رہنماؤں، مذہبی قائدین اور دانشوروں کی انتھک محنت سے اس نئے فن کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اور ان کی مسلسل کوششوں اور یاددہانیوں سے یہ فن اب ہمارے معاشرے میں بھی کافی مقبولیت اختیار کررہا ہے۔
اس فن کو بزبانِ عام "سازش” کہا جاتا ہے۔ اس کی مختصر تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ اگر آپ کسی کام کا ارادہ کرلیں اور کسی دوسرے بندے کی دانستہ یا نادانستہ حرکات کی وجہ سے آپ اپنے ارادوں میں ناکام ہوجاتے ہیں، یا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی ناکامی میں اس بندے کا کچھ نہ کچھ کردار ہے، تو ضرور یہ اس بندے کی آپ کے خلاف سازش ہے۔ مثلا میں کل ڈیوٹی پر جارہا تھا اور بس اسٹاپ پر پہنچنے سے پہلے ہی بس نکل چکی تھی، میں دفتر 20 منٹ دیر سے پہنچا اور منیجر کی باتیں سنیں۔ یہ بس ڈرائیور کی سازش تھی۔ دوسری مثال ، میں نے امتحان کے لئے اچھی خاصی تیاری کی تھی، لیکن ممتحن نے پرچہ کافی مشکل بنا کر میرے خلاف سازش کی ، اس لئے میں فیل ہوگیا۔ تیسری مثال، الیکشن ہارنے والی پارٹی ہمیشہ یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس کے خلاف اسٹیبلیشمنٹ نے سازش کی ہے، یعنی الیکشن میں کوئی بھی پارٹی بغیر سازش کے نہیں ہار سکتی۔ جس دفعہ بغیر سازش کے الیکشن ہوئے، اس دفعہ ساری سیاسی پارٹیاں جیت جائیں گی۔
سازش کی بہت ساری شاخیں (قسمیں) ہیں۔ البتہ مشہور اقسام میں امریکی سازش، یہودی سازش،بھارتی سازش، انتہاپسندی کی سازش، فحاشی و عریانی کی سازش شامل ہیں۔ ہر سازش معاشرے کے الگ الگ طبقوں میں اپنی خصوصیات کی بناء پر کافی مقبول ہے۔ دینی اور مذہبی طبقے امریکی اور یہودی سازش سے زیادہ متاثر ہیں اور ان کے اجتماعات میں سازش کے بارے میں کافی معلوماتی لیکچر ہوتے ہیں۔ امریکی اور یہودی سازشوں کے مختلف پہلؤوں پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے اور اپنی ناکامیوں کی وجہ ان سازشوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے مذہبی طبقے کے نزدیک سازش دورِ جدید کا شیطان ہے۔
بھارتی سازش دینی اور لبرل سب طبقوں میں یکساں طور پر مقبول ہے اور الیکشن کے دنوں میں اس کے مناسب مقدار میں استعمال سے کافی ووٹ ملتے ہیں۔ بھارتی سازش کوماضی میں دینی حمیت اور جہادی غیرت کے ساتھ ملا کر کشمیر کے مسئلے پر اس کی آزمائش کی گئی اور ایک نئی منافع بخش انڈسٹری وجود میں آگئی تھی۔ بعد میں اس پراڈکٹ پر بین الاقوامی مارکیٹ میں پابندی لگ گئی تھی، اس لئے اب یہ انڈسٹری بند ہے۔ البتہ بھارتی سازش کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ اب بھی اکثر اوقات ہمارے لیڈر اس سازش کے اثرات سے قوم کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
سازش کی مقامی سطح پر مقبولیت کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس کی مانگ میں کافی اضافہ ہوا ہے اور دیگر ممالک نے اپنی ضروریات کے تحت سازشی نظریات پر کام شروع کردیا ہے۔ سازشی نظریات دراصل سازش کی ایک ذیلی شاخ ہے اور اس کو اکثر کسی بات یا بحث کو رد کرنے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ، اگر کوئی بندہ یہ مقدمہ دائر کرے کہ اس کو فلاں بندے نے کاروبار میں نقصان پہنچایا ہے تو مدعیٰ علیہ اس دعوے کو سازشی نظریہ کہہ کر رد کرسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں مقدموں کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں عدالتیں سازشی نظریوں کے ذریعے انتہائی تیزرفتاری اور شفافیت کے ساتھ مقدمات کا فیصلہ سنائیں گی۔
مستقبل قریب میں سازش کا باقاعدہ استعمال بین الاقوامی سفارت کاری اور دفاعی اداروں میں بھی شروع ہوجائے گا۔ سازشوں کا تجزیہ کرنے کے لئے ہرملک ایک تجزیاتی ادارہ بنائے گا جو دوسرے ممالک کی سازشوں کا توڑ کرنے کی کوشش کرے گا۔ تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ اس سے ان ملکوں کے دفاعی بجٹ میں کافی کمی آئے گی اور براہ راست لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرکے جنگ سے زیادہ دیرپا نتائج حاصل کئے جا سکیں گے۔

ایک انقلابی کی ڈائری



ہمیں حالات حاضرہ کے بارے میں جاننے اور تبصرہ کرنے کا بہت شوق ہے۔ یہ نہ تو ہماری تعلیم کا کمال ہے نہ ہمارے تجربے کا، یوں سمجھئے جیسے ہمیں یہ شوق ورثے میں ملا ہو۔ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر تبصرے ہوں، یا ملک کے حالات کے بارے میں ماہرانہ رائے کا اظہار، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے چھپی سازش کا سراغ لگانا ہو، یا امریکی و برطانوی سازشوں سے پردہ اٹھانا ہو، ہم ہر فن مولا ہیں۔

ایسی بات نہیں کہ ہم کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ ہمارا دن کافی مصروف گزرتا ہے، صبح اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، پھر نماز کے بعد مسجد میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اس ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس لئے ان کی حکومت کے خاتمے کی اجتماعی دعا کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔

ناشتے کے بعد ہم دفتر جاتے ہیں۔ دفتر میں چونکہ کام زیادہ ہوتا ہے، اس لئے اخبار ساتھ لے کر دراز میں رکھ لیتے ہیں کہ اگر موقع ملا تو کچھ ملکی حالات سے واقفیت حاصل ہوسکے گی۔ 10 بجے کی چائے پر دفتر کے ساتھی کینٹین میں جمع ہوتے ہیں۔ سب کا یہی رونا ہوتا ہے کہ اس حکومت نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ یہ بحث کبھی کبھار طول پکڑ جاتی ہے اور ہمیں بحث کو ختم کرنے کے لئے اخباری تراشے اور حوالے دینے پڑتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ دفتری سرگرمی نہیں لیکن ملک کی بہتری کے لئے ہم رضاکارانہ طور پر یہ خدمات انجام دیتے ہیں۔

خدا بھلا کرے مارک زکربرگ کا، جنہوں نے ہم جیسے سیاسی کارکنوں پر فیس بک کی شکل میں ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔ فیس بک کو ہم آگاہی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے فیس بک پیج پر10، 12 تبصرے تو ہم روزانہ کرتے ہیں۔ چونکہ یہ روزانہ کا کام ہے اس لئے ہمیں زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ اکثر پوسٹیں "ماشاء اللہ، سبحان اللہ ، واہ واہ، میرا لیڈر شیر ہے، میرے لیڈر کی سادگی دیکھو، لیڈر ہو تو ایسا، میری پارٹی زندہ باد، وغیرہ جیسے جملوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔

اس کے بعد ہم اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کے فیس بک پیجز پر جاتے ہیں اور وہاں پر لوگوں کو ان کی اصلیت سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہمیں کبھی کبھار فوٹو شاپ کا سہارا لینا پڑتا ہے، لیکن چونکہ یہ کام آگاہی اور اصلاح کی نیت سے کیا جاتا ہے، اس لئے ہمارا یقین ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہم بھلے مخالف پارٹی والوں کی تصویروں سے سر کاٹ کر کہیں اور فٹ کردیں، یا کسی ڈانس پارٹی کی تصاویر شئیر کریں، ہماری نیت اس قوم کی اصلاح ہے۔ تصویروں کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو ان پارٹیوں کی منافقت سے بھی آگاہ کرتے ہیں، اور ان کے دوغلے پن کی مذمت مہذب انداز میں کرتے ہیں۔ ہمارے ایسے پوسٹ کچھ یوں ہوتے ہیں: لعنت، لکھ دی لعنت، درفٹے منہ، گو ۔۔۔۔ گو، ۔۔۔۔ کی منافقت وغیرہ وغیرہ۔

چونکہ ہم اور ہماری پسندیدہ سیاسی جماعت کبھی غلط نہیں ہوسکتی، اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سارے اچھے اور کھرے صحافی ہمارے لیڈروں کے حق میں کالم لکھیں گے۔ اکثر صحافی ایسا کرتے بھی ہیں۔ لیکن پھر ان کی مالی اور سیاسی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں، اس لئے وہ لفافہ وصول کرکے ہمارے لیڈروں کی کردارکشی شروع کردیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے اپنا یہ اصول بنا دیا ہے کہ جو ہمارے لیڈروں کے خلاف بولے گا یا کالم لکھے گا، وہ صحافی یا تو بکا ہوا ہے، یا سیاسی تعصب کا شکار ہے۔ ایسے لوگ صحافت کے نام پر دھبہ ہیں، اس لئے ہماری سوشل میڈیا ٹیم دن رات کی محنت سے ایسے لوگوں کی اصلیت آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ ان صحافیوں کی بھرپور مذمت بھی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

مستقل مزاج طالب علم کا طریقہ مطالعہ



اگر آپ کسی امتحان کی تیاری کررہے ہیں تو ایک مستقل مزاج طالب علم کا مطالعے کا طریقہ آپ کے کام آسکتا ہے۔

مطالعے کی میز پر بیٹھنے سے پہلے کتاب، نوٹ بک، قلم اور ایک گھڑی کا بندوبست کرلیجئے۔ گھڑی اس لئے کہ کہیں مقرر کردہ وقت سے زیادہ مطالعہ نہ کر بیٹھیں۔ ایک حد سے زیادہ مطالعے سے دماغ پر بوجھ پڑتا ہے۔ اس لئے اس سے گریز کرنا چاہیئے۔ اگر سگریٹ وغیرہ کا شوق رکھتے ہیں تو ایک ڈبی سائیڈ پر رکھ لیں۔ پانی کی بوتل ساتھ رکھیں تاکہ خشک موضوعات پڑھتے ہوئے گلا خشک ہونے کی صورت میں کام آسکے۔

اب مطالعے کا آغاز کریں۔ سب سے پہلے کتاب کے صفحے گن لیں، پھر فہرست پر ایک نظر ڈال کر متعلقہ باب کو پڑھنا شروع کریں۔ پھر اس باب کے صفحات گن لیں۔ اگر یہ باب مشکل لگ رہا ہو تو ایک دو صفحے اگلے یا پچھلے باب سے پڑھ لیں۔ پھر چار پانچ منٹ کا وقفہ کرکے کتاب کے صفحات کو دائیں سے بائیں پلٹنا شروع کردیں۔ بیچ میں کہیں دو تین جملے پڑھ بھی لیں، تا کہ علم میں اضافہ ہو۔ 15، 20 صفحے پلٹنے کے بعد انہی صفحوں کو واپس پلٹنا شروع کردیں۔ اس طرح آپ بور بھی نہیں ہوںگے اور ایک دو صفحے پڑھ بھی لیں گے۔

ہر پانچ منٹ کے بعد گھڑی میں وقت دیکھتے رہیں۔ جیسے ہی ایک نشست کا وقت پورا ہو، کتاب بند کرکے تھوڑا آرام کرلیں۔ اس دوران فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کریں، ٹوئٹر پر خبریں پڑھیں، ملکی سیاسی حالات پر اپنی ماہرانہ رائے دیں، حکمرانوں کو کوسیں کہ ملک کو کس نہج پر لے گئے حالانکہ یہ لوگ نہ ہوتے تو ہمارے ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔

پھر تھوڑا باہر کا چکر لگا کر آئیں، کیونکہ ایک ہی جگہ بیٹھنے سے دوران خون پر برا اثر پڑتا ہے اور پڑھائی کے دوران تو دماغ کے پرزے تک ہل جاتے ہیں۔

اس کے بعد بھی اگر وقت بچے تو پھر شروع سے مطالعے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مطالعہ دوبارہ شروع کریں۔

خبردار:ایک ماہر، سند یافتہ نالائق اور مستقل مزاجی سے فیل ہونے والے طالب علم کی اجازت اور رہنمائی کے بغیر یہ عمل کرنے کی اجازت نہیں۔ خلاف ورزی کرکے پاس ہونے والا نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔

حکومت چلانے کے آسان طریقے



پاکستان میں آج کل نوجوانوں کو سیاسی میدان میں زیادہ اختیارات اور ذمہ داریاں دینے کا رجحان ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ نوجوانوں کو اپنی پارٹی میں اہم ذمہ داریاں دیں۔ ان میں کچھ واقعی نوجوان ہوتے ہیں اور کچھ کی صرف حکومت کرنے کی خواہش جوان ہوتی ہے۔ بہرحال دونوں قسم کے سیاستدان ہمیشہ جوان ہی رہتے ہیں۔

ان میں سے اول الذکر نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے حکومت چلانے کے کچھ آسان اور آزمودہ طریقے پیش خدمت ہیں۔ یہ طریقے پاکستان میں گزشتہ 66 سالوں سے آزمودہ ہیں اور ان کی اثر پذیری میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ ان طریقوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

1) حکومت سے پہلے کا عرصہ 2) حکومتی دور 3) اپوزیشن کا دور۔  حیران ہونے کی ضرورت نہیں، تینوں ادوار میں سیاستدان حکومت میں ہی ہوتا ہے۔

حکومت سے پہلے کا دور: اس عرصے میں آپ کو اپنی امیج بہتر کرنی ہے۔ عوام میں سیاستدانوں کے بارے میں جو منفی رائے پائی جاتی ہے، اس کا اثر زائل کرنا ہے۔ اس کے لئے آپ لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کریں، پروٹوکول کے بغیر گھومیں پھریں۔ اگر کسی جگہ پر لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے احتجاج کررہے ہوں تو ان سے یکجہتی کے لئے احتجاج میں شریک ہوں، ان کے حقوق کے لئے لڑنے مرنے کا عزم کریں اور دبے لفظوں میں یہ بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ ‘دیکھ لیا فلاں کو ووٹ دینے کا نتیجہ’۔ اس سے رفتہ رفتہ آپ ایک نجات دہندہ رہنما کے طور پر جانے جائیں گے اور اگلے الیکشن میں (اگر ہوئے تو) آپ کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

اگر آپ کسی سیاسی جماعت میں اہم ذمہ داریوں پر فائز ہیں تو پھر مندرجہ بالا عوامی خدمات کے ساتھ ساتھ روزانہ، ہفتہ وار یا پھر کم از کم مہینے میں ایک بار اخباری بیانات اور ٹی وی انٹرویو اور ٹاک شو کے ذریعے حکومت وقت کو آڑے ہاتھوں لیں۔ حکومت کے ہر جائز و ناجائز کام پر تنقید کریں، حکومتی منصوبوں میں کیڑے نکالیں اور مظلوم عوام کے حقوق کے لئے لڑنے مرنے کی قسمیں کھائیں۔

حکومتی دور: جب آپ کی پارٹی کو اقتدار مل جائے تو سب سے پہلے اپنے لئے بہتر سے بہتر وزارت کا قلمدان حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اصول اور ڈسپلن کو ایک طرف رکھیں،  ورنہ بعد میں کسی بے کار وزارت کو لے کر روتے رہیں گے۔ آج کل تو کسی ایسی ویسی وزارت کے لئے ٹی وی والے انٹرویو بھی نہیں لیتے۔ اس لئے اس ہدف کو ضرور حاصل کریں۔ اس کے بعد اپنے لئے کچھ محافظوں کا انتظام کردیں، بس یہی دو تین سو افراد پر مشتمل اور پروٹوکول کے بغیر کہیں سفر نہ کریں۔ عوام میں گھل مل جانے کی پرانی عادتیں چھوڑ دیں ورنہ پھر لوگوں میں آپ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ اس لئے فاصلہ رکھیں۔

۔ اس کے بعد عوام کی خدمت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے بہت بڑے حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کو پچھلے دور کی صعوبتوں سے نکالنے کے لئے مندرجہ ذیل کام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں:

سب سے پہلے پچھلی حکومت کے جاری کردہ منصوبوں کو بیک جنبش قلم روک دیں۔ یہ منصوبے عوام پر ظلم ڈھانے کے لئے شروع کئے گئے تھے۔ اس لئے عوام کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لئے اگر قومی خزانے کا کچھ نقصان ہوتا بھی ہے تو یہ سودا اتنا برا نہیں۔

اس کے بعد اپنی پارٹی منشور کے مطابق عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی اسکیم شروع کریں۔ البتہ یہ اسکیم نہایت قلیل المدتی بنیاد پر ہونے چاہیئے۔ ورنہ لوگوں کا دل  اس دنیا میں ہی لگ جائے گا اور وہ آخرت سے بے فکر ہوجائیں گے۔ اس کی ذمہ داری پھر آپ کی حکومت پر ہوگی۔ کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت اپنی پارٹی کے اراکین کا ‘خاص خیال’ رکھیں۔ انہی لوگوں کی دعاؤں سے آپ اس مقام پر پہنچے ہیں اور اگلی مرتبہ پھر یہی لوگ آپ کے کام آئیں گے۔

اپوزیشن والے آپ کو کام کرنے نہیں دیں گے۔ اس لئے ان کو کیسوں میں الجھائے رکھیں تاکہ عدالتوں اور جیل کے درمیان چکر کاٹتے رہیں۔ اور عوام کو ان سے دور رکھنے کے لئے کبھی کبھار یہ بیان دیتے رہیں کہ عوام اب سمجھدار ہوگئی ہے اور عوام کو بے وقوف بنانا اپوزیشن کے لئے آسان نہیں، تاکہ اپوزیشن کا ساتھ دینے والے خود کو بے وقوف سمجھیں اور پیچھے ہٹ جائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی سرپھرا سیاسی لیڈر حکومت کے کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے تو اس کی کردارکشی کریں، اس کا ماضی لوگوں کے سامنے لائیں کہ کیسے اس نے بچپن میں فلاں تندور سے روٹی چرائی تھی اور فلاں کے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ گیا تھا۔

سب سے اہم کام اپنے مستقبل کی فکرکرنا ہے۔ آنے والے وقت کے لئے پہلے سے تیاری کریں۔ ائیرپورٹ پر ایک طیارہ ہمہ وقت تیار رکھیں۔ کبھی بھی حفاظتی تدابیر کے طور پر ملک سے باہر جانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس کے بعد اپنے بچوں کی دال روٹی کے لئے دس بارہ کارخانے، کچھ شاپنگ سنٹرز وغیرہ بنا کر بیوی بچوں کے نام کردیں  تاکہ مشکل وقت میں ان کے کام آئے۔ حکومتی کاموں میں اپنے رشتہ داروں کی مدد حاصل کریں تاکہ وہ بھی عوام کی بھرپور خدمت کرسکیں۔

اپوزیشن کا دور: اپوزیشن والے دور میں زیادہ کام نہیں ہوتا۔ اگر آپ جیل سے باہر رہے تو اخبارات پڑھیں، ٹی وی دیکھیں ، حکومتی منصوبوں اور بیانات کی مخالفت میں بیانات جاری کرتے رہیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔ ورنہ جیل میں وقت گزاری کے لئے کوئی کتاب لکھیں تاکہ عوام میں آپ کا امیج ایک نڈر سیاسی لیڈر کے طور پر ہو۔

امید ہے مندرجہ بالا مشورے اور طریقے آپ کے کام آئیں گے اور آپ ہمیں دعائیں دیں گے البتہ یہ دعائیں آپ عوام سے ملنے والی دعاؤں سے نہ دیں۔ وہ صرف آپ ہی کے لئے ہیں۔

2060: ملالہ کا پاکستان


معاشرتی علوم کی کلاس کا ایک منظر

پیارے بچوں، آج کی سبق کا عنوان ہے، "ملالہ کی جدوجہد”۔  معاشرتی علوم کے استاد نے چھٹی جماعت کے طلبہ کو کلاس کے آغاز میں بتایا۔

"اچھا تو آپ ملالہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟” استاد نے طلبہ سے مخاطب ہو کر سوال پوچھا۔

"سر، ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لئے جدوجہد کی۔ اس وقت ملالہ کو طالبان نے اسکول جانے کی وجہ سے گولی ماری، لیکن ملالہ بچ گئی اور پھر اس نے دن رات ایک کرکے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مہم شروع کی۔” افضال نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتاتے ہوئے داد طلب نظروں سے استاد کی طرف دیکھا۔ استاد نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور شاباشی دی۔

"اس کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم ہے ہماری اس لیڈر کے بارے میں؟” استاد نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

"سر، ملالہ پاکستان کی وزیر اعظم رہی ہیں۔” اسد نے کھڑے ہوکر استاد کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"ٹھیک ہے، آپ لوگ ملالہ کے نام سے واقف ہیں۔ اب اس کی خدمات اور کارناموں کے بارے میں تفصیل سے پڑھتے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی پاکستان کی ایک معروف اور مشہور انسانی حقوق کی کارکن تھیں۔ ان کو زمانۂ طالبعملی میں ہی لڑکیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی بناء پر طالبان نے گولی مار دی۔ لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں اور اس کے بعد انہوں نے اور بھی تندہی سے لڑکیوں کے حق کے لئے آواز بلند کی۔

اس وقت پاکستان پر انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جہادی ذہن رکھنے والے قدامت پسندوں کی سوچ رکھنے والے لوگوں کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ اگرچہ حکومت میں نہیں تھے، لیکن معاشرے میں ان کی سوچ کافی حد تک سرایت کرچکی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کو پتھر کے دور کے قوانین اور رسوم و رواج کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں تھے۔

ان حالات کی وجہ سے ملالہ کو پاکستان میں لڑکیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بھلا ہو ہمارے مغربی دوست ممالک کا، جنہوں نے میڈیا کے ذریعے ملالہ کی مہم کو پذیرائی بخشی اور کئی سال تک ملالہ یورپ میں مقیم رہنے کے بعد واپس پاکستان آئیں۔

پاکستان آکر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے کے بعد ملک کی دوسری خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔”

"سر، اس سے پہلے لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی تھیں؟” آصف نے استاد سے سوال کیا۔

” ملالہ کی حکومت سے پہلے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور کچھ جگہوں پر جب لڑکیوں کے اسکول بنے تو وہاں پر طالبان نے پابندی لگائی تھی۔ اسی لیے تو ملالہ کو گولی ماری گئی۔ لیکن ملالہ کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر لڑکی تعلیم حاصل کرے تاکہ ملک ترقی کرے۔

اس کے علاوہ دقیانوسی خیالات رکھنے والے لوگوں کی بنائی ہوئی قوانین کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے 2050ء میں دو تہائی اکثریت سے ختم کردیا۔ 1500 سال پہلے کے معاشرے کی قوانین کو اس جدید دور میں لاگو کرنے کے حامی اس اقدام پر بہت سیخ پا ہوگئے اور ملالہ کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کردئیے، لیکن حکومت نے ایسے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا ارادہ کیا تھا اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیا۔

ان قوانین کی جگہ ترقی یافتہ دور سے مطابقت رکھنے والے قوانین پاس کئے گئے۔ سب سے پہلے پردے پر پابندی لگادی گئی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے لڑکیوں کو پسماندہ رکھا جارہا تھا۔ اس کے بعد نصاب سے جہاد سے متعلق تمام آیات نکال دی گئی۔ انتہا پسندوں نے اپنے نظریات نصاب میں شامل کرکے پوری قوم کو دہشت گرد بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی، جس کو ملالہ نے ناکام بنادیا۔

اس کے بعد تمام سرکاری اداروں کے ملازمین پر داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ کیونکہ اس سے پاکستان کا امیج ایک قدامت پسند ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ اس لئے ملک کے وسیع تر مفاد میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگادی گئی۔

اس کے بعد بھی ملالہ اور تعلیم کے دشمن اپنے پروپیگنڈے سے باز نہیں آئے اور انہوں نے سرے سے اس بات کا انکار ہی کردیا کہ ملالہ پر کبھی حملہ ہوا تھا۔ یہ سازشی نظریات والے لوگ تھے، جن کا مقصد لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔ اس لئے پاکستانی پارلیمنٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں ایک قانون پاس کیا جس کی رو سے جو شخص ملالہ پر حملے کے واقعے سے انکار کرے گا، اس کو پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

اس کے علاوہ بھی ملالہ نے پاکستان میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت منصوبے شروع کئے۔ انہی خدمات کی بناء پر پاکستانی پارلیمنٹ اب ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک قرارداد پر غور کررہی ہے۔ اس قرارداد کی چیدہ چیدہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ پاکستان کا نام تبدیل کرکے ملالستان رکھا جائے، کیونکہ پاکستان کے نام سے انتہا پسندی کی بو آتی ہے۔

2۔ ملالہ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستانی کرنسی سے قائد اعظم کی تصویر ہٹا کر ملالہ کی تصویر شامل کی جائے۔

3۔ تمام سرکاری اداروں میں ملالہ کی تصاویر آویزاں کی جائیں۔

4. دینی مدرسوں اورعربی زبان کی تعلیم پر پابندی لگادی جائے کیونکہ جن لوگوں نے ملالہ کو گولی ماری تھی، وہ مدرسے میں پڑھتے رہے تھے۔

5۔ اسلامی نام رکھنے پر پابندی لگادی جائے۔ اب سارے نام پشتو، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ہونے چاہیئے۔

6۔ اردو میں عربی زبان کافی حد تک سرایت کرچکی ہے۔ اس لئے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو عربی الفاظ کا متبادل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ عربی رسم الخط کا متبادل بھی بناکر پیش کرے۔

امید ہے کہ ملالہ کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اسمبلی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرے گی۔”

"تو پیارے بچوں، یہ تھا آج کا معاشرتی علوم کا سبق۔ کل اس سبق سے متعلق ٹیسٹ لیا جائے گا۔ سارے بچے ہوم ورک کر کے آئیں۔” استاد نے کلاس کے اختتام پر طلبہ کو بتایا۔

احتجاج


میرا منیجر ہر وقت مجھے ڈانٹتا رہتا ہے۔ میرے کام میں کچھ نہ کچھ نقص نکالتا رہتا ہے۔ یہ کردیا تو وہ کیوں نہیں کیا، وہ کام کیا تو ٹھیک سے کیوں نہیں کیا۔ غرض یہ کہ تنگ آمد بجنگ آمد والی صورتحال بنتی جارہی ہے۔

آج تو حد ہوگئی۔ فیکٹری میں سارے ساتھیوں کے سامنے بہت برا بھلا کہا۔ کہنے لگے، اعجاز! میں نے کہا تھا کہ یہ کام وقت پر مکمل ہونے چاہیئے، تمہیں کچھ احساس ہے کہ نہیں۔ میں ہمیشہ کی طرح سر جھکائے کھڑا سنتا رہا۔ صفائی دینے کی کوشش کی تو کہنے لگے، یہ بہانے اپنے پاس رکھو۔

دوپہر کو لنچ بریک کے دوران میں سوچوں میں گم تھا۔ سوچا، اب میں چپ نہیں رہوں گا۔ اپنی آواز باقی لوگوں تک پہنچاؤں گا۔ میرے بھی کچھ حقوق ہیں، میں اب اپنی حق تلفی برداشت نہیں کروں گا۔ اب اس نا انصافی اور جانبدارانہ سلوک کے خلاف احتجاج کروں گا۔

اپنے دل میں فیصلہ کرکے میں کام پر واپس جانے کی بجائے سیدھا فیکٹری کے سامنے سڑک پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ اور گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے شروع کردیئے، میرا منیجر! ہائے ہائے، میرا باس مردہ باد، ظلم کے ضابطے میں نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سڑک پر اکا دکا گاڑیاں جا رہی تھیں، لوگ مجھے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور آہستہ آہستہ ہجوم بڑھتا گیا۔ ہماری فیکٹری کے ساتھی بھی میرے ساتھ آ کر کھڑے ہوگئے اور نعرے لگانے میں میرا ساتھ دینے لگے۔ پھر میں نے دیکھا، پریس والے کیمرے ہاتھ میں لئے ہماری طرف آرہے تھے؛ ان کو دیکھ کر میں نے اور زور سے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ میرا منیجر فیکٹری سے نکل کر ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافی مانگنے آئے گا اور کہے گا، میں اپنے رویئے پر بہت شرمندہ ہوں، مجھے معاف کردو۔

ہجوم میں سے کوئی مجھے آواز دے رہا تھا، اعجاز! اعجاز! چلو کام پر جانے کا وقت ہوگیا ہے۔ میں نے کہا، اب تو میں فیکٹری تب جاؤں گا، جب وہ گنجا یہاں آکر مجھ سے معافی مانگے گا۔ یہ کہنا تھا کہ کسی نے مجھے کندھے سے جھنجھوڑ کر کہا، ارے نالائق! معافی مانگے میری جوتی! تم ابھی تک یہیں بیٹھے ہوئے ہو؟ کام چور!

میں نے آس پاس دیکھا تو کیفے ٹیریا خالی ہوچکا تھا، اور میرا منیجر میرے سامنے کھڑا غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔

سیاسی حکیم، سیاسی معجون


کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے، اکثر حکیم اپنے مصنوعات کی تشہیر کے لئے بروشر چھاپتے ہیں۔ ان بروشرز میں طرح طرح کی دواؤں کے فارمولے مفت بتا کر قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بات معجون کے فائدے سے شروع ہوتی ہے، یہ حافظہ تیز کرتا ہے، بدن میں چستی پیدا کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جب آپ معجون کے فائدے پڑھ چکے ہوں تو پھر اس کے اجزائے ترکیبی کا ذکر ہوتا ہے۔ ایسے عجیب عجیب نام لکھے ہوتے ہیں کہ پڑھ کر واقعی حافظہ تیز کرنے کی مشق ہوجاتی ہے۔ اور اجزاء بھی ایسے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ کہاں سے لاؤں۔ نتیجتاً بندہ مایوس ہوا ہی چاہتا ہے کہ آگے لکھا ہوتا ہے، ”یہ ساری دوائیں ہمارے مطب پر نہایت آسان قیمت پر دستیاب ہیں۔“

مایوسی امید میں بدل جاتی ہے۔ مطب پر جا کر معجون خرید کر حافظے کو تیز کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ جب کچھ فرق نہیں پڑتا تو دوبارہ حکیم صاحب کے پاس جاتے ہیں۔ حکیم صاحب غذاؤں کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہیں کہ اس دوا کے ساتھ یہ چیزیں استعمال نہیں کرنی چاہیئے تھی، آپ نے بد پرہیزی کی، اس لئے اب فلاں فلاں شربت استعمال کریں تا کہ جو ری ایکشن ہوا ہے، اس کی تلافی ہو۔ اس طرح عمل اور رد عمل کے چکر میں بندہ اتنے چکر کھا جاتا ہے کہ رہا سہا حافظہ بھی خراب ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی افق کا حال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ سیاسی حکیم ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے پہلے فارمولے بتاتے ہیں۔ حکیموں کے فارمولوں کی طرح یہ سیاسی فارمولے بھی حافظے کو تیز کرنے کی بہترین مشق ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً اب تک انگریزی کے تقریباً سارے حروف کے دوحرفی و سہ حرفی سیاسی فارمولے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔نیا فارمولا بنانا بھی چنداں مشکل کام نہیں۔ بس انگریزی حروف تہجی کی ترتیب بدلتے رہیئے، فارمولے بنتے رہیں گے۔ یہ سیاسی فارمولے بھی اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ ڈائری کے بغیر سارے فارمولے یاد رکھنا حافظے کا بہترین امتحان ہوتا ہے۔

پھر جب عوام یہ سوچ کر ہمت ہارنے لگ جائے کہ یہ سارے کام تو تقریباً نا ممکن ہیں، خوشخبری ملتی ہے کہ جناب ہمارے منشور کے مطابق ہمارے پاس ملک و قوم کے مسائل کا حل موجود ہے۔ بس تھوڑا سا مینڈیٹ دے دیں، پھر دیکھیں ہماری سیاسی بصیرت کے کرشمے۔

اب سیاسی مطب پر جاکر مینڈیٹ دے کر مسائل کے حل کی امید پیدا ہوتی ہے۔ عوام اپنا مینڈیٹ دے کر یہ امید رکھتے ہیں کہ سیاسی حکیم ملک کی گرتی ہوئی معاشی اور سیاسی صحت کی بہتری کے لئے کوشش کریں گے۔ ماہ و سال گزرنے کے باوجود جب ملک کی معاشی اور سیاسی صحت میں بہتری نہیں آتی تو مایوس ہو کر دوسرے سیاسی مطب پر جاتے ہیں۔ یہ حکیم صاحب پہلے والے فارمولوں کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ان فارمولوں سے تو ملک کی سیاسی اور معاشی صحت پر نہایت برا اثر پڑا ہے۔ اس لئے پرانے والے فارمولے کو ترک کرکے اس نئے فارمولے کے مطابق عمل کیا جائے تا کہ ملک کے حالات بہتر ہوں۔ نئے فارمولے بھی مینڈیٹ دے کر خریدے جاتے ہیں۔

عوام پھر مینڈیٹ کے بدلے ملک کی بہتری کے خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے جو پہلے سیاسی حکیم کی دی ہوئی دوا سے ہوتا ہے۔ اس طرح سیاسی حکیموں کو آزماتے آزماتے ملک کی صحت ابتر ہوجاتی ہے۔

ذرا دیکھئے قوم کو اگلی مینڈیٹ کے بدلے کونسا معجون ملتا ہے!

(میری یہ تحریر 17 اگست 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

مولوی کی کلاس


آپ شائد سوچ رہے ہونگے کہ یہ مولوی صاحب کی کلاس کی بات ہورہی ہے جس میں وہ بچوں کو ا، ب پڑھاتے ہیں۔ جی نہیں، یہ وہ کلاس ہے جس میں مولوی‌ صاحب کو پیش کرکے ان کی ‘خاطر تواضع’ کی جاتی ہے۔ یوں تو اس سلسلے میں ایک غیر مربوط کوشش پہلے سے ہی چل رہی ہے لیکن اس کلاس کو منظم کرنے کے لئے سوچ کر آپ کو اس کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ ان قواعد و ضوابط کی پابندی لازمی ہے، اس کے بغیر کلاس کو مولوی کی کلاس نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس بندے کو مولویوں کا ہمدرد سمجھا جائے گا۔

مولوی کی کلاس لینے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ آپ کو روشن خیال سمجھیں ورنہ آپ کی کلاس بے کار ہوجائے گی اور لوگ سمجھیں گے کہ یہ مذہبی لڑائی ہے۔ روشن خیال بننے کے لئے کچھ آزمودہ طریقے پیش خدمت ہیں۔

سب سے پہلے، اگر آپ مرد ہیں تو داڑھی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں، داڑھی والا ہمیشہ انتہا پسند ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اسمارٹ بنیں اور کلین شیو پر توجہ دیں، پھر ترقی پسندوں کی تصانیف پڑھیں، ان کی تصانیف میں شامل وہ باتیں جن سے کان سرخ ہوتے ہوں، ہر مناسب موقع پر لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی باتیں کریں، کسی عورت کے ساتھ ظلم ہو تو ریلیاں نکالیں، ان کے پاس جا کر فوٹو سیشن کرائیں اور یہ مطالبہ کریں‌ کہ ذمہ داروں کو جلد از جلد سزا دی جائے۔ لیکن اتنا بھی شور و غوغا نہ کریں کہ حکومت واقعی مجبور ہو، ہتھ ہولا رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر بات میں مولویوں کو کوسیں، امن و امان کا مسئلہ ہو، مہنگائی کا مسئلہ ہو، یا پاکستان کی عالمی ساکھ کا، ہر بات میں مولوی کو گھسیٹیں۔ اس سے آپ کا امیج بہت روشن ہوگا اور آپ خود ہی چند ہفتوں یا مہینوں میں فرق محسوس کریں گے۔

اگر آپ خاتون ہیں، تو مندرجہ بالا طریقوں میں سے داڑھی کی بات چھوڑ کر باقی آپ کے لئے بھی ہیں، البتہ آپ کی صنف کے حساب سے کچھ مزید طریقے ہیں جن کو آزما کر آپ دقیانوسی کی جگہ روشن خیال کہلائیں گی۔ سب سے پہلے حجاب کو خیرباد کہہ دیں، روشن خیالی کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا چہرہ بھی روشن رہے۔ اس کے بعد بتدریج دوپٹے کو سر سے سِرکا کر کندھے پر لے آئیں۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دوپٹے کو بھی خیر باد کہہ دیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سارا عمل بہت آہستہ ہو ورنہ مولوی آپ کی کلاس لینا شروع کردے گا۔ اسی طرح کپڑوں میں بتدریج تبدیلیاں لائیں حتیٰ کہ آپ بھی ترقی پسند خواتین کی طرح ان کی رنگ میں رنگ جائیں۔ کلبوں میں جائیں، بوائے فرینڈ ڈھونڈیں، اور ظالم سماج کی زنجیریں توڑنے کا عزم کریں۔ پھر اس کے بعد مولوی کی کلاس لینا شروع کریں، میڈیا پر آپ کو بہت پذیرائی ملے گی اور آپ خود ہی محسوس کریں گی کہ واقعی روشن خیال ہونا کتنی اچھی بات ہے!!!!

اس کے علاوہ کتے پالنے کا شوق رکھیں، صبح کی سیر میں ان کو ساتھ لے کر جائیں تا کہ آپ ماڈرن لگیں۔ اور فوٹو سیشنز میں بھی کتوں کو گود میں بٹھا کر ان سے پیار کریں تاکہ آپ کی بے زبانوں کے ساتھ دوستی مشہورِ عام وخاص ہوجائے۔

لیجئے، اب آپ دل کھول کر مولوی کو گالیاں دیں۔ ان کو معاشرے کا ناسور قرار دیں۔ ان کے رہن سہن، کپڑوں، کھانے (حلوہ ) وغیرہ کی بھی برائی کریں۔ ان کی ایسی خاطر تواضع کریں کہ کوئی بھی مولوی آپ کے سامنے ٹک بھی نہیں سکے۔ ایسا کرنے سے کوئی آپ کو روک نہیں سکے گا کیونکہ آپ کے دماغ میں روشن خیالی کا بلب روشن ہے، جس کا مقابلہ مولوی کے دماغ کی پرانی شمع نہیں کرسکتی۔

نوٹ: میں مولوی نہیں ہوں۔
(میری یہ تحریر 1 فروری 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

ابن الوقت


وہ بہت غصے میں دفتر میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرنے کا انداز ظاہر کررہا تھا جیسے کسی سے لڑ جھگڑ کر آیا ہو۔ آتے ہی کہنے لگا، یہ کیا بدتمیزی ہے؟ تم لوگ کیا نئے نئے اصول بناتے ہو؟ ناک میں دم کرکے رکھا ہے۔ یہ رپورٹ دو، وہ رپورٹ لکھو۔ ہم لوگ اپنا بھی کوئی کام کرسکتے ہیں یا پھر صرف آپ جیسے دفتری لوگوں کی فرمائشیں پوری کریں؟’ وہ بولتا ہی چلا گیا۔

ٹیم لیڈر نے اس کی طرف دیکھا، اور کہا، ‘کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟’

اس نے پھر بھنا کر کہا، ‘ارے ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں۔ تم لوگ ہر روز نئے نئے مطالبے کرتے ہو۔ کام میں روڑے اٹکاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’ وہ پھر وہی رونا شروع ہوگیا۔

‘ٹھیک ہے، ہم دیکھتے ہیں، کیا مسئلہ ہے۔ آپ ناراض نہ ہوں۔’ ٹیم لیڈر نے اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔

‘ارے پریشان ہوتی ہے میری جوتی۔ میں کیوں‌ پریشان ہوں بھلا؟ میں تو تم لوگوں کو یہ بتانے آیا ہوں کہ مجھے اپنا کام کرنے دو، یہ فضول کے نئے نئے طریقہ کار میرے لئے درد سر ہیں۔’

دفتر میں بیٹھے باقی سارے لوگ اپنا کام چھوڑ کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کچھ ادھیڑ عمر پرانے کھلاڑی ایک دوسرے کو اشاروں سے آگاہ کررہے تھے، کہ اب ٹیم لیڈر کی خیر نہیں۔ آفس بوائے بھی سارے کام چھوڑ کر کیبن کے باہر کان لگا کر کھڑا تھا۔ ٹیم لیڈر کے ساتھ بیٹھے معاونین بھی اس نئی صورتحال پر پریشان تھے۔ احتجاج کرنے والا ان کا اپنا ساتھی تھا، لیکن دفتر کے دوسرے سیکشن میں کام کرتا تھا۔

ایک معاون نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے ان کو سمجھانے کی کوشش کی، ‘جناب یہ تو نئے سسٹم کا تقاضا ہے۔ اس طرح آپ کمپنی کے اصولوں کے مطابق عمل کرتے ہیں تو سب کا فائدہ ہوتا ہے۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ آپ سب کو کام میں‌ آسانی ہو۔ پھر بھی ہم کوشش کریں گے، آپ کی بات اعلیٰ افسران تک پہنچائیں گے۔’
‘جی بالکل، جناب کی شکایت بجا ہے۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا، کہ اس طرح کام میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔’ دوسرے معاون نے شکایت کنندہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
‘میں بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اس نئے طریقہ کار پر نظرثانی کی جائے۔’ تیسرے معاون نے بھی سر کجھاتے ہوئے کہا۔

ٹیم لیڈر بھی بے بس ہوگیا۔ کہا، ‘ٹھیک ہے، ہم آپ کی بات نوٹ کرکے اپنے سینئر افسران کو پہنچادیں‌گے۔’

یہ سن کر شکایت کنندہ نے سب کی طرف دیکھا اور باہر نکل گیا۔

اس کے جانے کے بعد ٹیم لیڈر نے میز پر پڑے ہوئے ٹرے کو ہاتھ سے دھکا دے کر نیچے پھینک دیا۔ ‘ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو؟ بڑا آیا بڑھکیں مارنے والا!’

‘ارے بہت ہی فضول قسم کا بندہ ہے جناب۔ میرا تو دل کررہا تھا، کہ سیدھا دو تین جڑ دوں اس کے منہ پر۔’ پہلے معاون نے غصے سے کہا۔

‘جناب، میں تو اس سے بولنے ہی والا تھا کہ اپنی بکواس بند کرکے دفع ہوجائے لیکن آپ لوگ اس کو سمجھا رہے تھے تو میں نے بھی اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔’ دوسرے معاون نے میز پر پڑے کاغذات کو درست کرتے ہوئے کہا۔

تیسرا معاون اپنی کرسی سے اٹھ کر فرش پر پڑے ٹرے کو اٹھانے لگا جو ٹیم لیڈر نے غصے میں نیچے پھینک دیا تھا، اور کہنے لگا، ‘ اگر وہ دوبارہ آیا تو میں اس کو ایسا جواب دوں گا کہ یاد رکھے گا۔’

میں اس ساری کارروائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ ساری باتیں سن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھا، ‘ آپ لوگوں نے یہ باتیں اس بندے کے سامنے کیوں‌ نہیں کی؟’

‘ارے تو تم بول دیتے نا۔ منہ میں زبان نہیں تھی کیا؟’ ٹیم لیڈر نے پھنکار کر میری عزت افزائی کی۔

‘یہ کیا بولیں گے جناب، ہم پر طنز کرتا رہتا ہے۔’ پہلے معاون نے حسبِ معمول ہاں میں ہاں ملائی۔

‘بزدل کہیں کا۔’ دوسرے معاون نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا مناسب سمجھا۔

‘ڈرپوک کہیں کا۔’ تیسرے معاون نے بھی مجھے خونخوار نظروں سے دیکھا۔

(میری یہ تحریر 21 جنوری 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی۔)

انقلاب زندہ باد!!!


چوک پر حشر بپا تھی۔ لوگ جلوس کی شکل میں جمع ہورہے تھے۔ نعرے لگ رہے تھے، انقلاب زندہ باد، انقلاب انقلاب۔ کچھ نوجوان دیوانہ وار ان نعروں کی پکار سے لوگوں کے جذبات گرما رہے تھے۔ میں نے دیکھا، حدِ نظر تک لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

جلوس آہستہ آہستہ جلسے کی شکل اختیار کرگیا۔ کچھ افراد کو کندھوں پر بٹھا کر چوک میں قائم اسٹیج تک پہنچایا گیا۔ نعروں کا زور کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اسٹیج پر عوام کا لیڈر ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا، جس سے نوجوانوں‌ کا جوش و خروش اور بھی بڑھ رہا تھا۔

اسٹیج کے ایک کونے میں عوامی دولت لوٹنے والے کھڑے تھے، ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ان کو اپنا انجام صاف نظر آرہا تھا۔ عوامی لیڈر نے اب تقریر شروع کردی تھی۔ لوگ خاموشی سے سن رہے تھے۔ بیچ میں نوجوان نعرے بھی لگاتے۔ عوامی لیڈر نے عوام کی تعریف کی کہ ان کی قربانیوں کی بدولت اتنا بڑا انقلاب آیا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی جب عوامی لیڈر نے کہا، ‘اب اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا، اب غریب کیک کھائے گا، جاگیردار کھیتوں میں کام کریں گے۔ کوئی بھی قوم کی دولت لوٹ نہیں سکے گا۔ کرپٹ اراکین پارلیمنٹ کو سزا کے طور پر اسلام آباد میں سائیکل رکشہ چلانا پڑے گا اور ان رکشوں میں عوام سفر کرکے ان کرپٹ عناصر کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔’

عوامی لیڈر کچھ اور بھی کہہ رہا تھا، لیکن مجھ سے رہا نہ گیا اور جوش میں آکر نعرے لگانے شروع کردئیے، انقلاب زندہ باد!!! عوامی لیڈر زندہ باد!!! انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں جلوس میں سے کسی نے مجھے زور سے جھنجھوڑا، اور کہا، یار سونے بھی دو، خواب میں بھی نعرے لگاتے رہتے ہو۔

پھر میری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

(میری یہ تحریر 15 فروری 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)