Category Archives: پاکستان

2060: ملالہ کا پاکستان


معاشرتی علوم کی کلاس کا ایک منظر

پیارے بچوں، آج کی سبق کا عنوان ہے، "ملالہ کی جدوجہد”۔  معاشرتی علوم کے استاد نے چھٹی جماعت کے طلبہ کو کلاس کے آغاز میں بتایا۔

"اچھا تو آپ ملالہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟” استاد نے طلبہ سے مخاطب ہو کر سوال پوچھا۔

"سر، ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لئے جدوجہد کی۔ اس وقت ملالہ کو طالبان نے اسکول جانے کی وجہ سے گولی ماری، لیکن ملالہ بچ گئی اور پھر اس نے دن رات ایک کرکے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مہم شروع کی۔” افضال نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتاتے ہوئے داد طلب نظروں سے استاد کی طرف دیکھا۔ استاد نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور شاباشی دی۔

"اس کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم ہے ہماری اس لیڈر کے بارے میں؟” استاد نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

"سر، ملالہ پاکستان کی وزیر اعظم رہی ہیں۔” اسد نے کھڑے ہوکر استاد کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"ٹھیک ہے، آپ لوگ ملالہ کے نام سے واقف ہیں۔ اب اس کی خدمات اور کارناموں کے بارے میں تفصیل سے پڑھتے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی پاکستان کی ایک معروف اور مشہور انسانی حقوق کی کارکن تھیں۔ ان کو زمانۂ طالبعملی میں ہی لڑکیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی بناء پر طالبان نے گولی مار دی۔ لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں اور اس کے بعد انہوں نے اور بھی تندہی سے لڑکیوں کے حق کے لئے آواز بلند کی۔

اس وقت پاکستان پر انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جہادی ذہن رکھنے والے قدامت پسندوں کی سوچ رکھنے والے لوگوں کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ اگرچہ حکومت میں نہیں تھے، لیکن معاشرے میں ان کی سوچ کافی حد تک سرایت کرچکی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کو پتھر کے دور کے قوانین اور رسوم و رواج کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں تھے۔

ان حالات کی وجہ سے ملالہ کو پاکستان میں لڑکیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بھلا ہو ہمارے مغربی دوست ممالک کا، جنہوں نے میڈیا کے ذریعے ملالہ کی مہم کو پذیرائی بخشی اور کئی سال تک ملالہ یورپ میں مقیم رہنے کے بعد واپس پاکستان آئیں۔

پاکستان آکر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے کے بعد ملک کی دوسری خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔”

"سر، اس سے پہلے لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی تھیں؟” آصف نے استاد سے سوال کیا۔

” ملالہ کی حکومت سے پہلے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور کچھ جگہوں پر جب لڑکیوں کے اسکول بنے تو وہاں پر طالبان نے پابندی لگائی تھی۔ اسی لیے تو ملالہ کو گولی ماری گئی۔ لیکن ملالہ کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر لڑکی تعلیم حاصل کرے تاکہ ملک ترقی کرے۔

اس کے علاوہ دقیانوسی خیالات رکھنے والے لوگوں کی بنائی ہوئی قوانین کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے 2050ء میں دو تہائی اکثریت سے ختم کردیا۔ 1500 سال پہلے کے معاشرے کی قوانین کو اس جدید دور میں لاگو کرنے کے حامی اس اقدام پر بہت سیخ پا ہوگئے اور ملالہ کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کردئیے، لیکن حکومت نے ایسے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا ارادہ کیا تھا اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیا۔

ان قوانین کی جگہ ترقی یافتہ دور سے مطابقت رکھنے والے قوانین پاس کئے گئے۔ سب سے پہلے پردے پر پابندی لگادی گئی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے لڑکیوں کو پسماندہ رکھا جارہا تھا۔ اس کے بعد نصاب سے جہاد سے متعلق تمام آیات نکال دی گئی۔ انتہا پسندوں نے اپنے نظریات نصاب میں شامل کرکے پوری قوم کو دہشت گرد بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی، جس کو ملالہ نے ناکام بنادیا۔

اس کے بعد تمام سرکاری اداروں کے ملازمین پر داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ کیونکہ اس سے پاکستان کا امیج ایک قدامت پسند ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ اس لئے ملک کے وسیع تر مفاد میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگادی گئی۔

اس کے بعد بھی ملالہ اور تعلیم کے دشمن اپنے پروپیگنڈے سے باز نہیں آئے اور انہوں نے سرے سے اس بات کا انکار ہی کردیا کہ ملالہ پر کبھی حملہ ہوا تھا۔ یہ سازشی نظریات والے لوگ تھے، جن کا مقصد لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔ اس لئے پاکستانی پارلیمنٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں ایک قانون پاس کیا جس کی رو سے جو شخص ملالہ پر حملے کے واقعے سے انکار کرے گا، اس کو پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

اس کے علاوہ بھی ملالہ نے پاکستان میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت منصوبے شروع کئے۔ انہی خدمات کی بناء پر پاکستانی پارلیمنٹ اب ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک قرارداد پر غور کررہی ہے۔ اس قرارداد کی چیدہ چیدہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ پاکستان کا نام تبدیل کرکے ملالستان رکھا جائے، کیونکہ پاکستان کے نام سے انتہا پسندی کی بو آتی ہے۔

2۔ ملالہ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستانی کرنسی سے قائد اعظم کی تصویر ہٹا کر ملالہ کی تصویر شامل کی جائے۔

3۔ تمام سرکاری اداروں میں ملالہ کی تصاویر آویزاں کی جائیں۔

4. دینی مدرسوں اورعربی زبان کی تعلیم پر پابندی لگادی جائے کیونکہ جن لوگوں نے ملالہ کو گولی ماری تھی، وہ مدرسے میں پڑھتے رہے تھے۔

5۔ اسلامی نام رکھنے پر پابندی لگادی جائے۔ اب سارے نام پشتو، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ہونے چاہیئے۔

6۔ اردو میں عربی زبان کافی حد تک سرایت کرچکی ہے۔ اس لئے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو عربی الفاظ کا متبادل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ عربی رسم الخط کا متبادل بھی بناکر پیش کرے۔

امید ہے کہ ملالہ کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اسمبلی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرے گی۔”

"تو پیارے بچوں، یہ تھا آج کا معاشرتی علوم کا سبق۔ کل اس سبق سے متعلق ٹیسٹ لیا جائے گا۔ سارے بچے ہوم ورک کر کے آئیں۔” استاد نے کلاس کے اختتام پر طلبہ کو بتایا۔

تحریک انصاف کا جلسہ – کچھ تاثرات


2004ء میں جب پہلی بار کراچی گیا تھا، تو وہاں کی دیواروں پر ‘جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے’ لکھا ہوا دیکھ کر کراچی والوں کی قائد اعظم سے محبت پر رشک آیا۔ سوچا، یہ لوگ تو واقعی قائداعظم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ تو بعد میں معلوم پڑا کہ وہ قائد تو آؤٹ ڈیٹڈ ہوگئے ہیں، اب یہ نئے قائد کی باتیں اور ان کا دور ہے۔

ایم کیو ایم کراچی کی ایک بڑی جماعت ہے، اور پاکستان کی سیاست میں اس کا اہم حصہ ہے۔ مثبت یا منفی طرز عمل، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ان کے سیاسی وزن سے انکار ممکن نہیں۔ ہم لوگ ان کی پالیسیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ صرف اس لئے کہ وہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے لوگوں پر اپنی رائے ٹھونستے ہیں۔ اپنے لیڈر کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں، اور جو غلطی سے بولے، اس کے لئے کراچی کی دیواریں صحیح معنوں میں‌ نوشتہ دیوار ہیں۔

سیاست میں تشدد کا وسیع پیمانے پر استعمال ایم کیو ایم سے شروع ہوا۔ عدم برداشت اور سیاسی قتل ان کے دور میں فروغ پائے۔ اس سے پہلے اگر چہ پاکستان کی سیاست میں یہ حربے استعمال ہوتے تھے لیکن ایک محدود اور مستثنٰی صورتحال میں۔

اگر ایم کیو ایم مندرجہ بالا خصوصیات کی بناء پر ہم لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنتی ہے، تو آخر ایسی کیا وجہ ہوگی کہ یہی طرز عمل اگر دوسری پارٹی اختیار کرے تو لوگ صرف انقلاب کی امید میں اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرلے؟ مانا کہ مینار پاکستان کے سامنے لاکھوں لوگوں کا اجتماع عوامی مقبولیت کی نشانی ہے، لیکن اگر صرف لوگوں کی حمایت اور چند لاکھ کا اجتماع ہی کسی کے صحیح ہونے کی دلیل ہے تو پھر ایم کیو ایم کے جلسوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جماعت اسلامی بارہا مینار پاکستان کے سامنے لاکھوں کا اجتماع کرچکی ہے۔ مانا کہ عمران خان کے بیانات پاکستان کے لوگوں کے دل کی آواز ہیں، تبھی تو لوگوں کی اکثریت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ان کے جلسے میں شریک ہوئی۔ لیکن ایک کامیاب جلسے کی بنیاد پر انقلاب کے خواب صرف ایک دیوانہ ہی دیکھ سکتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جو حربے پرانی سیاسی جماعتیں پہلے استعمال کرتی تھیں، تحریک انصاف انہی حربوں کے ذریعے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف میں بھی موقع پرست سیاستدان ہوا کا رخ دیکھ کر شامل ہورہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافے کی توقع بھی کی جارہی ہے، لیکن اگر انقلاب صرف حکومت کی تبدیلی کا نام ہے تو ایسے انقلاب سے کچھ زیادہ توقعات رکھنا بعد میں مایوسی کا سبب بنتا ہے۔

تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں جو کچھ میڈیا میں سامنے آرہا ہے، اللٰہ جانے کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے، لیکن اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر پاکستان کو ایک نئے ایم کیو ایم کے لئے تیار ہونا چاہیئے، جہاں انقلاب کے مخالفین کو اپنا نوشتہ دیوار پڑھنے کے لئے کراچی جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

سیاسی حکیم، سیاسی معجون


کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے، اکثر حکیم اپنے مصنوعات کی تشہیر کے لئے بروشر چھاپتے ہیں۔ ان بروشرز میں طرح طرح کی دواؤں کے فارمولے مفت بتا کر قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بات معجون کے فائدے سے شروع ہوتی ہے، یہ حافظہ تیز کرتا ہے، بدن میں چستی پیدا کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جب آپ معجون کے فائدے پڑھ چکے ہوں تو پھر اس کے اجزائے ترکیبی کا ذکر ہوتا ہے۔ ایسے عجیب عجیب نام لکھے ہوتے ہیں کہ پڑھ کر واقعی حافظہ تیز کرنے کی مشق ہوجاتی ہے۔ اور اجزاء بھی ایسے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ کہاں سے لاؤں۔ نتیجتاً بندہ مایوس ہوا ہی چاہتا ہے کہ آگے لکھا ہوتا ہے، ”یہ ساری دوائیں ہمارے مطب پر نہایت آسان قیمت پر دستیاب ہیں۔“

مایوسی امید میں بدل جاتی ہے۔ مطب پر جا کر معجون خرید کر حافظے کو تیز کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ جب کچھ فرق نہیں پڑتا تو دوبارہ حکیم صاحب کے پاس جاتے ہیں۔ حکیم صاحب غذاؤں کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہیں کہ اس دوا کے ساتھ یہ چیزیں استعمال نہیں کرنی چاہیئے تھی، آپ نے بد پرہیزی کی، اس لئے اب فلاں فلاں شربت استعمال کریں تا کہ جو ری ایکشن ہوا ہے، اس کی تلافی ہو۔ اس طرح عمل اور رد عمل کے چکر میں بندہ اتنے چکر کھا جاتا ہے کہ رہا سہا حافظہ بھی خراب ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی افق کا حال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ سیاسی حکیم ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے پہلے فارمولے بتاتے ہیں۔ حکیموں کے فارمولوں کی طرح یہ سیاسی فارمولے بھی حافظے کو تیز کرنے کی بہترین مشق ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً اب تک انگریزی کے تقریباً سارے حروف کے دوحرفی و سہ حرفی سیاسی فارمولے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔نیا فارمولا بنانا بھی چنداں مشکل کام نہیں۔ بس انگریزی حروف تہجی کی ترتیب بدلتے رہیئے، فارمولے بنتے رہیں گے۔ یہ سیاسی فارمولے بھی اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ ڈائری کے بغیر سارے فارمولے یاد رکھنا حافظے کا بہترین امتحان ہوتا ہے۔

پھر جب عوام یہ سوچ کر ہمت ہارنے لگ جائے کہ یہ سارے کام تو تقریباً نا ممکن ہیں، خوشخبری ملتی ہے کہ جناب ہمارے منشور کے مطابق ہمارے پاس ملک و قوم کے مسائل کا حل موجود ہے۔ بس تھوڑا سا مینڈیٹ دے دیں، پھر دیکھیں ہماری سیاسی بصیرت کے کرشمے۔

اب سیاسی مطب پر جاکر مینڈیٹ دے کر مسائل کے حل کی امید پیدا ہوتی ہے۔ عوام اپنا مینڈیٹ دے کر یہ امید رکھتے ہیں کہ سیاسی حکیم ملک کی گرتی ہوئی معاشی اور سیاسی صحت کی بہتری کے لئے کوشش کریں گے۔ ماہ و سال گزرنے کے باوجود جب ملک کی معاشی اور سیاسی صحت میں بہتری نہیں آتی تو مایوس ہو کر دوسرے سیاسی مطب پر جاتے ہیں۔ یہ حکیم صاحب پہلے والے فارمولوں کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ان فارمولوں سے تو ملک کی سیاسی اور معاشی صحت پر نہایت برا اثر پڑا ہے۔ اس لئے پرانے والے فارمولے کو ترک کرکے اس نئے فارمولے کے مطابق عمل کیا جائے تا کہ ملک کے حالات بہتر ہوں۔ نئے فارمولے بھی مینڈیٹ دے کر خریدے جاتے ہیں۔

عوام پھر مینڈیٹ کے بدلے ملک کی بہتری کے خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے جو پہلے سیاسی حکیم کی دی ہوئی دوا سے ہوتا ہے۔ اس طرح سیاسی حکیموں کو آزماتے آزماتے ملک کی صحت ابتر ہوجاتی ہے۔

ذرا دیکھئے قوم کو اگلی مینڈیٹ کے بدلے کونسا معجون ملتا ہے!

(میری یہ تحریر 17 اگست 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

80 روپے کی چائے


پشاور ائیرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھے مسافر بار بار کھڑکی سے باہر رن وے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ائیربلو کی پرواز حسبِ معمول تاخیر سے جارہی تھی۔ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، کچھ اخبار سے وقت گزاری کی کوشش میں مصروف تھے۔

کہتے ہیں انتظار سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ میں بھی باقی لوگوں کی طرح کھڑکی سے باہر جھانک جھانک کر اکتا چکا تھا۔ لاؤنج کے وسط میں ایک چھوٹا سا کیفیٹیریا ہے، جہاں پر چائے، بسکٹ وغیرہ دستیاب ہوتے ہیں۔ سوچا، پرواز میں ابھی وقت ہے، چائے کی طلب ہورہی تھی، اس لئے کاؤنٹر پر جا کر چائے کا آرڈر دیا۔

چائے کے ساتھ ایک کریم رول تھا، جو کہ بھوک کو کچھ وقت تک قابو کرنے کے لئے کافی تھا۔ پیسے دے کر بقایا لیا تو معلوم ہوا کہ چائے کا ایک کپ 80 روپے کا ہے، اسی طرح کریم رول بھی 80 روپے کا۔ بہت عجیب لگا کہ اتنے زیادہ نرخ کس بنیاد پر وصول کررہے ہیں۔

میں نے سوچا اتنی مہنگی چائے بھلا کون پئے گا۔ جس ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی غریب ہو، بے روزگاری ہو، وہاں پر ایسی شاہ خرچی بھلا کون کرے گا۔ لیکن آس پاس نظر دوڑائی تو ہر طرف چائے کے کپ میرا منہ چڑا رہے تھے۔

میں نے بھی ایک قوم کا غم ایک طرف رکھا، اور چائے پی کر جہاز کی طرف روانہ ہوگیا۔

(میری یہ تحریر 4 جون 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

انقلاب زندہ باد!!!


چوک پر حشر بپا تھی۔ لوگ جلوس کی شکل میں جمع ہورہے تھے۔ نعرے لگ رہے تھے، انقلاب زندہ باد، انقلاب انقلاب۔ کچھ نوجوان دیوانہ وار ان نعروں کی پکار سے لوگوں کے جذبات گرما رہے تھے۔ میں نے دیکھا، حدِ نظر تک لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

جلوس آہستہ آہستہ جلسے کی شکل اختیار کرگیا۔ کچھ افراد کو کندھوں پر بٹھا کر چوک میں قائم اسٹیج تک پہنچایا گیا۔ نعروں کا زور کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اسٹیج پر عوام کا لیڈر ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا، جس سے نوجوانوں‌ کا جوش و خروش اور بھی بڑھ رہا تھا۔

اسٹیج کے ایک کونے میں عوامی دولت لوٹنے والے کھڑے تھے، ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ان کو اپنا انجام صاف نظر آرہا تھا۔ عوامی لیڈر نے اب تقریر شروع کردی تھی۔ لوگ خاموشی سے سن رہے تھے۔ بیچ میں نوجوان نعرے بھی لگاتے۔ عوامی لیڈر نے عوام کی تعریف کی کہ ان کی قربانیوں کی بدولت اتنا بڑا انقلاب آیا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی جب عوامی لیڈر نے کہا، ‘اب اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا، اب غریب کیک کھائے گا، جاگیردار کھیتوں میں کام کریں گے۔ کوئی بھی قوم کی دولت لوٹ نہیں سکے گا۔ کرپٹ اراکین پارلیمنٹ کو سزا کے طور پر اسلام آباد میں سائیکل رکشہ چلانا پڑے گا اور ان رکشوں میں عوام سفر کرکے ان کرپٹ عناصر کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔’

عوامی لیڈر کچھ اور بھی کہہ رہا تھا، لیکن مجھ سے رہا نہ گیا اور جوش میں آکر نعرے لگانے شروع کردئیے، انقلاب زندہ باد!!! عوامی لیڈر زندہ باد!!! انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں جلوس میں سے کسی نے مجھے زور سے جھنجھوڑا، اور کہا، یار سونے بھی دو، خواب میں بھی نعرے لگاتے رہتے ہو۔

پھر میری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

(میری یہ تحریر 15 فروری 2011ء کو پاک نیٹ پر شائع ہوئی تھی۔)

لاہور سے وابستہ چند یادیں – آخری حصہ


لاہور میں کچھ ہفتے نوکری کی تلاش میں گزارنے کے بعد بھی جب کچھ بات نہ بنی تو گھٹن سی ہونے لگی۔ حالانکہ لاہور زندہ دل لوگوں کی جگہ ہے، لیکن میری افتادِ طبع کی وجہ سے میں ایسے ماحول میں آسانی سے ایڈجسٹ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کچھ دنوں بعد کراچی جانے کا ارادہ کرلیا اور جون 2004ء کے اواخر میں کراچی روانہ ہوگیا۔

اس سے پہلے بھی کراچی جا چکا تھا۔ لیکن پشاور سے کراچی بذریعہ بس سفر کیا تھا۔ پشاور سے کراچی تک کا راستہ بس کے ذریعے 22 گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ لاہور نسبتاً کراچی کے زیادہ قریب ہوگا۔ اس لئے اس حساب سے کرایہ بھی کم ہوگا۔

یہی سوچ کر میں لاری اڈہ پہنچا، جو کہ مینار پاکستان کے قریب تھا۔ شام کا وقت ہورہا تھا۔ میں اپنے جس کزن کے پاس لاہور میں ٹھہرا تھا، انہوں نے کچھ پیسے دیئے لیکن میں نے یہ سوچ کر، کہ اتنا کرایہ نہیں ہوگا، واپس کردیئے۔ اگرچہ اس نے زبردستی کچھ رقم دے دی، لیکن مجھے حیرت تھی، کہ میرے پاس کافی رقم (700 روپے) موجود ہے، پھر بھی یہ پیسے دے رہے ہیں کہ ضرورت پڑے گی۔ خیر، لاری اڈہ پہنچ کر کراچی جانے والی بس ڈھونڈنے لگا۔ ایک جگہ ایک بس کھڑی نظر آگئی جس پر کراچی کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس سے پوچھا، کراچی کا ٹکٹ کتنے روپے کا ہے؟ اس نے کہا، 660 روپے کا ہے۔

یہ سن کر میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں نے کہا، بھائی، اتنا زیادہ؟ بولا، 660 سے کم میں نہیں ملے گا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، میں کسی اور بس میں چلا جاتا ہوں۔ یہ سن کر اس بندے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ مجھے تھوڑی حیرت ہوئی، لیکن اس کو نظرانداز کرکے وہاں سے نکل پڑا۔ پورا لاری اڈہ چھان مارا لیکن کہیں سے بھی کراچی کی دوسری بس نہ مل سکی۔ تھکا ہارا واپس اسی جگہ پہنچا تو دیکھا، اب اسی جگہ پر صادق آباد جانے والی بس کھڑی ہے۔

اب کی بار اس سے پوچھا، بھائی یہاں پر کراچی جانے والی بس تھی۔ کہنے لگا، وہ تو چلی گئی، لیکن اگر تمہیں کراچی جانا ہے تو یہ بس صادق آباد کے بعد کراچی جائے گی۔ ٹکٹ وہی 660 روپے ہوگا۔ میں مجبوراً راضی ہوگیا۔ اور پیسے دے کر ٹکٹ لی اور بس میں بیٹھ گیا۔ رات کے تقریباً بارہ بجے لاہور سے نکلے۔ راستے میں بہت سارے علاقے اور شہر آئے، جو کہ اب یاد نہیں۔ البتہ صبح کی نماز کے وقت بہاولپور پہنچے۔

جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں میرے پاس 700 روپے تھے جو کہ کرایہ ادا کرنے کے بعد 40 روپے رہ گئے تھے، اس لئے ناشتہ ہلکا پھلکا سا کیا۔ تھوڑی دیر بعد بس وہاں سے روانہ ہوگئی۔ بہاولپور سے آگے سڑک خراب تھی، لیکن ڈرائیور جیسے Desert Safari کے موڈ میں تھا۔ بس کو ایسے بھگا رہا تھا کہ کئی مقامات پر حادثات سے بال بال بچے۔

صبح 10 بجے کے قریب رحیم یار خان پہنچے، پھر وہاں سے صادق آباد روانہ ہوگئے۔ صادق آباد پہنچ کر بس ساری کی ساری خالی ہوگئی۔ میں اور دیگر 3 مسافر رہ گئے جو کراچی جانے والے تھے۔ بس کنڈکٹر نے ہم سے کہا، ہم آپ کو دوسری بس میں بٹھا دیتے ہیں۔ باقی مسافر نہ مانے اور انہوں نے بس والوں سے پیسے لے لئے۔ میں نے سوچا، دوسری بس مل رہی ہے تو پیسے لے کر کیا کرنا۔ تھوڑا آگے جاکر بس رکی، کنڈکٹر نے مجھے اور باقی مسافروں کو اترنے کو کہا، میں یہ سمجھ رہا تھا، کہ بس کنڈکٹر ہمارے ساتھ جائے گا۔ کیونکہ وہ بس سے نیچے اترگیا تھا، اور بس ڈرائیور سے پنجابی میں کچھ کہہ رہا تھا۔ لیکن اچانک بس روانہ ہوگئی اور کنڈکٹر بھی بھاگم بھاگ بس میں سوار ہوکر وہاں سے چلا گیا۔

میں پریشان ہوگیا۔ 40 روپے سے تو ایک وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں، سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر کھڑے ہوکر کیا کریں؟ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر سامنے بس اڈہ میں ایک دوسری بس سروس والوں کے آفس میں جا کر کراچی کا ٹکٹ دکھایا، اور ان سے پوچھا کہ یہ ٹکٹ جس بس سروس کا ہے، ان کا آفس کدھر ہے؟ انہوں نے پوچھا، کیا کام ہے؟ میں نے پوری بات بتادی۔ کہنے لگا، یہ ٹکٹ ہمیں دے دو، اس کے بدلے ہم تمہیں کراچی کا ٹکٹ دے کر اپنی بس میں بھیج دیں گے۔ میں نے کہا، میرے پاس پیسے نہیں۔ کہنے لگے، پیسے نہیں چاہیئے، یہ ٹکٹ دے دو، اس کے ذریعے ہم ان بس والوں سے پیسے لے لیں گے۔

میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ فوراً ان کو ٹکٹ دے کر دوسری ٹکٹ لے لی۔ پوچھا، بس کتنے بجے روانہ ہوگی، کہنے لگے، یہی کوئی 2 گھنٹہ بعد۔ 2 گھنٹے کی بجائے بس 10 گھنٹے بعد روانہ ہوگئی۔ اس دوران جو 40 روپے جیب میں تھے، وہ بھی گرمی کی وجہ سے کبھی پانی کبھی جوس پی کر ختم شد۔

بس شام 7 بجے کے قریب صادق آباد سے روانہ ہوگئی۔ صبح کے تقریباً 6 بجے کراچی پہنچے۔ سہراب گوٹھ کے قریب بس سے اترا۔ اب آگے جانے کے لئے جیب میں صرف 5 روپے تھے۔ میں بس سے اتر کر سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟ اتنے میں ایک ٹیکسی والا آیا اور پوچھا، کہاں جانا ہے؟ میں نے ایڈریس بتایا۔ کہنے لگا، چلو۔ میں نے کہا میرے پاس ابھی پیسے نہیں۔ گھر پہنچ کر دیتا ہوں۔ کہنے لگا، کوئی بات نہیں، تم نہ بھی دو تو میں نہیں مانگتا۔

میں نے صرف ملیر کا نام سنا تھا۔ میرے پاس اپنے رشتہ داروں کا فون نمبر تھا۔ اس ٹیکسی والے نے فون کرکے جگہ کا پتا کیا اور مجھے وہاں‌ تک لے کر گیا۔ بعد میں بڑی مشکل سے اس کو پیسے لینے پر راضی کیا۔

میں سوچ رہا تھا، اگر کراچی میں لسانی اور سیاسی مفادات کی جنگ لڑنے والے ہم لوگوں پر رحم کریں تو کراچی پاکستانیوں کے لئے کسی جنت سے کم نہیں۔

( یہ تحریر 19 دسمبر 2010ء کو میرے ورڈ پریس پی کے بلاگ پر شائع ہوئی تھی۔ ورڈپریس پی کے بند ہونے کے بعد یہاں پر شائع کررہا ہوں۔)

لاہور سے وابستہ چند یادیں – دوسرا حصہ


مینارِ پاکستان سے سیدھا بادشاہی مسجد پہنچا۔ مسجد کے ساتھ علامہ اقبال کا مزار دیکھ کر پہلے وہاں جانے کا سوچا۔ مزار کے احاطے میں داخل ہو کر فاتحہ پڑھا، دعا کی۔ اس کے بعد کچھ دیر کھڑے ہو کر اس عظیم ہستی کی قبر کی طرف دیکھتا رہا۔ کیسے کیسے لوگ یہ زمین نگل گئی ہے؟ وہ لوگ جو کسی قوم کا سرمایہ افتخار ہوتے ہیں، جو غلامی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر اپنے ہم وطنوں کو منزل کی طرف گامزن رہنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اس شمع کی طرح، جو خود اپنے وجود کو ختم کرکے روشنی پیدا کرتی ہے۔

ان خیالات میں بھٹکتا بھٹکتا 1940ء کے اس دن کو تصور میں دیکھنے لگا، جب اقبال کے مزار کے سامنے پاکستان کا مطالبہ ہورہا تھا۔ میں تصور میں دیکھ رہا تھا، اقبال کی روح کتنی خوش ہورہی تھی۔ مسلمانانِ ہند کے لئے اس نے جو خواب دیکھا تھا، آج اس کی تعبیر میں پہلا قدم اٹھایا جارہا تھا۔

مزار اقبال سے نکل کر بادشاہی مسجد گیا۔ مسجد کے اندر داخل ہو کر اس کی قدامت کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ اگرچہ صفائی کا خیال رکھا گیا تھا، البتہ جو تصور میرے ذہن میں تھا، مسجد اس سے بہت خستہ حالت میں لگ رہی تھی۔ یا پھر یہ میرے تصور کی خامی تھی۔ مسجد میں ملک بھر سے آئے ہوئے لوگوں کا رش تھا۔ کوئی تصاویر کھینچ رہا تھا، کوئی مسجد کے دالان میں تپتی دھوپ میں کھڑا اپنے دوستوں سے کہہ رہا تھا، خیال رکھنا، تصویر میں گنبد نظر آنی چاہیئے۔

بادشاہی مسجد سے نکل کر گرمی میں کہیں اور جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں اگر چہ تنہائی پسند ہو لیکن گھومنے پھرنے میں اکیلے اکتاہٹ محسوس کرتا ہوں۔ اس لئے باہر نکل کر سڑک کے کنارے لگے اسٹال سے گنے کا جوس پیا، اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوگیا۔

گاڑی سے اتر کر پھر پیاس لگی، سامنے ایک جگہ ”آم کا جوس“ لکھا دیکھ کر وہاں گیا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص جوس بنا رہا تھا۔ مجھ سے پہلے دو افراد کھڑے جوس بننے کا انتظار کررہے تھے۔ جوس والے نے جوس بناتے ہوئے نیچے سے ایک ڈبا نکالا اور جوسر میں پڑے آم کے ساتھ ڈبے والا جوس بھی ڈال دیا۔ وہ لوگ جو کہ انتظار کررہے تھے، یہ دیکھ کر اس باباجی سے الجھ پڑے، کہ یہ تو آپ ٹھیک نہیں کررہے۔ آم کے جوس کے نام پر ڈبے کا جوس پلا رہے ہو۔ بابا جی بھی اپنی صفائیاں دے رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے اپنا ارادہ بدل دیا، اور وہاں سے چل پڑا۔

(جاری ہے)

( یہ تحریر 18 دسمبر 2010ء کو میرے ورڈ پریس پی کے بلاگ پر شائع ہوئی تھی۔ ورڈپریس پی کے بند ہونے کے بعد یہاں پر شائع کررہا ہوں۔)

لاہور سے وابستہ چند یادیں


بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم

2004ء میرے لئے ایک نہایت اہم سال تھا۔ میں روزگار کی تلاش میں کئی شہروں کا سفر کررہا تھا۔ جگہ جگہ نوکری کے لئے درخواستیں دیتا رہا۔ لیکن مطلوبہ تجربہ نہ ہونے کی بناء پر انکار کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلسل ڈیڑھ سال تک کوشش کرنے کے بعد بھی جاب نہ ملنے پر اگرچہ بہت مایوس تھا، لیکن اس کوشش کے دوران پاکستان کے کئی شہروں کو دیکھنے کا موقع ملا۔

پہلی مرتبہ لاہور 2003ء کے اواخر میں گیا تھا۔ لیکن وہ ایک مختصر سفرتھا۔ شہر کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دوسری مرتبہ 2004ء کی گرمیوں میں گیا تھا۔ اس بار ارادہ کیا تھا، کہ مصروفیات سے وقت نکال کر شہر کی ایک جھلک دیکھ لی جائے۔ ویسے بھی یار لوگ کہتے ہیں، جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ تو یہ شرط پوری کرنے کے لئے لاہور کی ایک مختصر سیر کا ارادہ کیا۔ ”لاہور کا جغرافیہ“ پڑھ کر دل میں خواہش تو ضرور تھی، لیکن فی الوقت لاہور کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ارادہ تھا۔

چنانچہ سب سے پہلے مینار پاکستان جانے کا ارادہ کیا۔ میں اپنے کزن کے پاس ٹھہرا تھا، جن کی رہائش قصور روڈ پر تھی۔ وہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر مینارِ پاکستان کی طرف روانہ ہوگیا۔ مینارِ پاکستان پہنچ کر پہلے تو پارک میں اِدھر اُدھر ٹہل کر محظوظ ہوتا رہا۔ پارک کے اس طرف بادشاہی مسجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ سڑک پر رواں گاڑیوں کا دھواں اگرچہ منظر کو دھندلا کرنے کی کوشش کررہا تھا، لیکن بادشاہی مسجد کے مینار جیسے فخر سے سر اٹھائے مینار پاکستان کی طرف دیکھتے ہوئے اس لمحے کی یاد تازہ کررہے تھے، جب قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔

کچھ دیر بعد مینار پاکستان کے پاس گیا۔ پتا چلا، مینار کے اوپر جانے کے لئے 10 روپے کا ٹکٹ ہے۔میں نے پوچھا، ٹکٹ کس لئے؟ جواب ملا، لفٹ استعمال ہوتا ہے اس لئے۔ خیر، ٹکٹ لے کر لفٹ کے پاس گیا، تو دیکھا سارے لوگ سیڑھیوں سے اوپر جارہے تھے۔ یعنی لفٹ کام نہیں کررہی تھی۔ اس لئے ہم بھی چاروناچار سیڑھیوں کے ذریعے اوپری منزل پر جانے لگا۔ اوپر بالکونی میں شہر کا نظارہ بہت ہی عجیب تھا۔ لوگوں کا کافی رش تھا۔ کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد واپس نیچے آیا۔

پارک میں جگہ جگہ فوٹوگرافر کھڑے ہو کر سیاحوں کو تصاویر کھینچنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ایک فوٹوگرافر میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا، ہاں بھئی تصویر کھنچوانی ہے؟ میں نے پوچھا، کتنے روپے لگیں گے؟ بے روزگار بندے کو ویسے بھی پوچھنا پڑتا ہے۔ اس نے کہا، 1 فوٹو کے 10 روپے۔ میں نے کہا، ایک فوٹو کے؟ کہنے لگا ہاں۔

میں نے سوچا، مینارِ پاکستان آنے کی کوئی یادگار تو ہونی چاہیئے۔ اس لئے ایک تصویر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس نے ایک تصویر کھینچی۔ میں نے جیب سے 10 روپے نکال کر اس کو دئیے۔ کہنے لگا، بھائی ابھی تو 9 تصویریں باقی ہیں۔ میں حیران ہوگیا، یہ کیا چکر ہے؟ میں نے کہا، بھائی آپ نے تو ایک تصویر کا کہا تھا، کہنے لگا، ہاں کہا تھا، لیکن ایک تصویر کےلئے میں باقی 9 تصاویر کا کیا کروں؟؟

مجبوراً باقی تصاویر بھی کھینچ لیں۔ اور اس کو 100 روپے دے کر اپنے آپ کو کوستا ہوا چل پڑا۔ فضول میں 100 روپے ضائع ہوگئے۔ آج جب بھی وہ تصاویر دیکھتا ہوں تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ واقعی لاہور والے بڑے زندہ دل ہیں۔

(جاری ہے)

( یہ تحریر 17 دسمبر 2010ء کو میرے ورڈ پریس پی کے بلاگ پر شائع ہوئی تھی۔ ورڈپریس پی کے بند ہونے کے بعد یہاں پر شائع کررہا ہوں۔)

میں شرمندہ ہوں!


ہر بار جب پاکستان میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا، تو اس سے اگلے دن دفتر جانا مشکل ہوتا۔ اکثر سوچتا کیا عذر پیش کروں ان واقعات کا؟ جب دفتر میں اپنے جاننے والوں‌ سے سامنا ہوتا تو وہی بات چھڑ جاتی، یار ہارون، کیسے لوگ ہیں یہ؟ مسجدوں میں گھس کر نمازیوں کو مارتے ہیں؟ یہ کیسا اسلام ہے؟ میں کبھی اس کو غیر ملکی ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیتا، کبھی اس کو چند گمراہ لوگوں کی کارروائی قرار دیتا۔ غرض کسی نہ کسی طرح اپنی جان چھڑا کر نکل جاتا۔ مجھے معلوم ہوتا تھا، میری باتوں سے ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی، لیکن میں ڈھیٹ بن کر ان کے ملکوں میں ہونے والے واقعات کا حوالہ دے کر کہتا، یار یہ تو تمہارے ممالک میں بھی ہوتا ہے! اس طرح کے اکا دکا واقعات سے پورے معاشرے کو تھوڑی قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے! آپ بھی کمال کرتے ہیں، پاکستانی ایسے بالکل نہیں۔ اچھے برے تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔

اس بار تو حد ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا، کیسے سامنا کروں اپنے غیرملکی دوستوں کا۔ کیا عذر پیش کروں اپنے ملک کے حالات کا۔ کیا مثال دوں ان کے ملکوں کا، کہ یہ تو آپ لوگوں کے ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ اس میں بڑی بات کیا ہے؟ چند جرائم پیشہ افراد کی کارروائی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

سوچ رہا تھا، کوئی پوچھے گا تو کہہ دوں گا، میں نے خبر نہیں پڑھی۔ آج کل بہت مصروف ہوں، نیوز دیکھی ہی نہیں۔ لیکن یہ عذر کچھ وزن نہیں رکھتا، آج کل میڈیا کا دور ہے۔ اور اس واقعے کی ویڈیو بھی تو سامنے آگئی ہے۔ تو کیا کروں؟ ٹھیک ہے، کوئی پوچھے گا تو کہہ دوں گا یہ تو چند جرائم پیشہ افراد کی کارروائی تھی، حکومت اس کی تحقیقات کررہی ہے۔ جلد ہی مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ لیکن یہ بات بھی کچھ عجیب سی لگ رہی تھی۔ ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک سانحہ ہوا ہے، اور مجرموں کو سزا دینے کے لئے تحقیقات ہورہی ہیں؟ ہاں، یہ بات بھی تو ہے۔ پھر خیال آیا، کہہ دوں گا، مہذب معاشروں میں مجرموں کو عدالتیں سزائیں دیتی ہیں، اس لئے وقت تو لگتا ہی ہے نا! لیکن جن ” مجرموں“ کو عوام کی عدالت میں مارا گیا، ان کو سزا پاکستان کی عدالت نے کیوں نہیں دی؟ ارے میں کیا عذر پیش کروں؟ سوچ سوچ کر پریشان ہوگیا۔

بس میں بیٹھ کر عجیب لگ رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا، جیسے سارے لوگ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھو، ایک پاکستانی بیٹھا ہوا ہے۔ یہ وہی ہے نا، جس کے ملک میں ”ڈاکوؤں“ کو عوام خود سزا دیتی ہے؟ ہاں، وہی ہے۔

آفس پہنچا تو کن انکھیوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ ابھی میرا کوئی کولیگ آئے گا، اور ہمیشہ کی طرح کہے گا، ہارون! یہ کیا ہورہا ہے پاکستان میں؟ میں کہوں گا، یار تم لوگ بھی تعصب کی انتہا کرتے ہو۔ سارے پاکستانی ایسے تھوڑی ہیں؟ چند افراد کی غلطیوں سے پورے ملک کو بدنام کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

لیکن کسی نے بھی نہیں پوچھا، کہ سیالکوٹ میں کیا واقعہ پیش آیا؟ کسی نے آکر مجھ سے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات شئیر نہیں کئے۔ کسی انڈین نے مجھے فخر سے یہ نہیں کہا کہ دیکھو، بھارت میں تو ایسا نہیں ہوتا! کسی نے نہیں پوچھا۔ شائد ان کو یقین ہوگیا تھا، شائد ان کو پتا چل گیا تھا، کہ ہم انسانیت کے درجے سے نیچے گر چکے ہیں۔ جو انسانیت پر یقین ہی نہیں رکھتے، ان سے بحث کیسی؟ شائد اس لئے وہ لوگ مجھے اگنور کر رہے تھے۔ میں پسینے میں شرابور ہوکر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، جیسے سب لوگ کہہ رہے ہوں، وہ دیکھو، یہی ہے وہ پاکستانی، جس کے ملک میں‌ ”انصاف“ سستا ملتا ہے۔ جہاں پر لوگ ”ڈاکوؤں“ کو پولیس کی موجودگی میں عوام سزا دیتی ہے!

اپنی زندگی میں شائد پہلی بار مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر افسوس ہوا!

ایک نماز کا احوال


السلام علیکم،

شارجہ جاتے ہوئے جمعہ کی نماز کے لئے جبل علی کی ایک مسجد گئے۔ مسجد درمیانی سائز کی تھی، جس میں مختلف ممالک کے لوگ نماز پڑھنے جوق در جوق آرہے تھے۔ پاکستانی، انڈین، بنگالی، مختلف عرب ممالک کے لوگ، غرض یہ کہ ایک عجیب سماں تھا، کچھ دیر کے لئے رنگ و نسل کی تفریق جیسے مٹ گئی تھی۔

ہم جب نماز کے لئے رکے تو اذانیں ہورہی تھیں۔ مسجد کے اندر بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی، باہر ٹینٹ لگا کر بہت لوگ بیٹھے تھے۔ ہم نے پہلے تو قسمت آزمائی کی کہ شائد اندر جگہ مل سکے۔ لیکن اندر ایک نگاہ دوڑائی تو کچھ ناممکن سا لگا، کہ اندر جگہ مل سکے۔ اس لئے باہر ہی بیٹھ گئے۔ ہماری طرح ہر کوئی آنے کے بعد مسجد کے اندر جانے کی کوشش کرتا، اگر کامیاب ہوتا تو ٹھیک، ورنہ ہمارے پاس ہی آکر بیٹھ جاتا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ گرمی کا موسم اور رمضان المبارک کا مہینہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسجد کے اندر بیٹھنے کی کوشش کررہے تھے، کیونکہ ساری مساجد کے اندر اے سی نصب ہیں۔

لوگوں کا تانتا بندھے دیکھ کر اچانک ایک خیال ذہن میں آیا۔ اگر یہ قیامت کا منظر ہوتا، کچھ لوگ اللٰہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں بیٹھے ہیں، کچھ لوگ وہاں جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جو خوش قسمت ہیں، ان کو سائے میں جگہ ملتی ہے، جن کے اعمال اچھے نہیں، وہ تپتی دھوپ میں، ایسی دھوپ میں، جب سورج سوا نیزے پر ہو، بیٹھے ہوں۔ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی ہلکی سی دھوپ بھی برداشت نہیں ہورہی، اللٰہ جانے وہ کیسا منظر ہوگا۔

دوسری بات جو نوٹ کی، یہ تھی کہ مسجد کے اندر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے اندر دروازے کے پاس بھی لوگ بیٹھے تھے، جس کی وجہ سے دروازہ کھولنا بہت مشکل تھا۔ کچھ عربی لوگ اور کچھ پختون بھائی دروازے پر زورآزمائی کرتے، لیکن ناکام ہوکر واپس آجاتے۔ ایسا ہی منظر شائد قیامت کے روز ہو، جب کوئی بندہ اپنی نسل اور فخر کی بنیاد پر اللٰہ کی رحمت کا حقدار نہیں بن سکے گا، بلکہ وہ ہوگا، جو اللٰہ کی طرف بلائے جانے پر دوڑ کر اللٰہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف گیا ہو۔

امام صاحب لہجے سے ضعیف العمر معلوم ہورہے تھے، لیکن ان کی آواز میں تاثیر بہت تھی۔ آدھے گھنٹے پر مشتمل خطبہ امارات میں پہلی مرتبہ سنا تھا۔ لیکن لوگ خاموشی کے ساتھ سن رہے تھے۔

اس وقت دل کچھ خوشی اور غم کے جذبات کے درمیان کشمکش میں مبتلا تھا، جب امام صاحب نے عراق، فلسطین، افغانستان اور چیچنیا کے ساتھ پاکستان کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔ خوشی اس بات کی ہورہی تھی، کہ ہم جیسوں‌ کو دنیا کے مسلمان اپنی دعاؤں کے قابل سمجھ رہے ہیں۔ غم اس بات کا تھا، کہ ہم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کے کام آنے کی بجائے آپس میں نیم خانہ جنگی کا شکار ہوکر ان کی دعاؤں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم دینے والا ہاتھ بنتے، لیکن لینے والا ہاتھ بن گئے۔ اللٰہ جانے ہماری یہ حالت کب تک رہے گی؟

اے اللٰہ ہماری حالت پر رحم فرما، ہمیں اس آزمائش سے نکال کر دوسرے مسلمان بھائیوں کے کام آنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین